پاکستان کی داخلی اور خارجی صورت حال کسی طور امید افزا اور بہتر قرار نہیں دی جاسکتی۔ داخلی طور پر انتشار اور سیاسی ابتری کا ایک سلسلہ مستقل چل رہا ہے اور ماضی قریب میں رونما ہونے والی کچھ مثبت تبدیلیاں (عدلیہ کی بیداری، وکلا تحریک، الیکشن وغیرہ) برسوں کے آزمودہ، کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بعد قریب قریب حالت نزاع میں ہیں۔ کمزور مرکزی حکومت اور مورال کی بدترین سطح پر پہنچی ہوئی افواج کی وجہ سے  پاکستان بقول مغربی میڈیا (درحقیقت) عالمی دہشت گردوں کے لیے “محفوظ پناہ گاہ“ یا “سیف ہیون“ بنا ہوا ہے ساتھ ساتھ تاریخ عالم کی واحد ایٹمی مملکت بھی جس کی سرحدوں پر بلا خوف و خطر بیرونی افواج، اندرونی اور بیرونی شدت پسندوں‌ اور ریاست کے اندر ریاست رکھنے والے قبائلیوں کی در اندازیوں کا گھناؤنا اور نہ ختم ہونے والا سلسہ  بھی جاری و ساری ہے۔

اس صورت حال میں نقصان اٹھاتا فریق صرف پاکستانی عوام ہے جو “کولیٹرل ڈیمیج“‌ کے کھاتے میں جانیں گنواتے جارہے ہیں۔ جہاں اندرونی طور پر لاتعداد مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں وہاں مغربی میڈیا اور خصوصا امریکی میڈیا میں پاکستان کا نام آج کل تواتر سے سننے میں آنے لگا ہے جو کسی صورت اچھا شگون نہیں ہے۔ امریکی افواج کو عراق میں “سرج اسٹریٹجی“ میں بے انتہا کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ عراق کی صورت حال بتدریج بہتری کی طرف جائے گی اور چند ہی مہینوں (یا دنوں)‌ میں بھرپور توجہ کا مرکز پاکستان بننے والا ہے۔ یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے کہ عراق جنگ کے خلاف ایک بین الاقوامی رائے عامہ موجود تھی جو افغانستان کی جنگ کو نہ صرف یہ کہ حق جانتی ہے بلکہ اب بھی اس بات کی قائل ہے کہ اصل توجہ کی طالب افغانستان جنگ ہے جس کا مرکز اب پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ہیں اور جنگ پھیل کر سوات تک پہنچ چکی ہے اور اثرات واہ اور اسلام آباد تک دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی فوج کا پورا نظام اور تربیت بھارت سے جنگ کرنے کی ہے۔ دہشت گردی اور ناٹو یا امریکہ جیسی ترقی یافتہ افواج کا مقابلہ کرنا فوج کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے قطعا ممکن نہیں جبکہ نقل و حمل کے لیے فوج محتاج ہی امریکہ کی ہے۔ اس کی جھلکیاں قوم قبائلیوں کے ساتھ فوج کی جھڑپوں میں دیکھ چکے ہیں جہاں فوج کو اس طرح کی جنگوں کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے  بے انتہا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف امریکی فوجیں اب اس طرح کی گوریلا جنگ سے نمٹنے کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہیں اور عراق میں آبادی کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے بڑی کامیابیاں حاصل کرچکی ہیں۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان انتہا درجے کی منافرت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ بلوچستان میں تو علحیدگی کی باقاعدہ تحریک موجود ہے اور کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں اسطرح کی علامتوں کی موجودگی انتہائی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس تمام صورت حال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں اس بحث کا وقت اب ہاتھ سے نکل چکا ہے میرے منہ میں خاک (ہو یا نہ ہو) بہت تھوڑا وقت بچا ہے جسکو ہم صدارتی انتخاب اور ججوں کی بحالی کے ٹوپی ڈرامہ میں تیزی سے ضائع کرتے جارہے ہیں جبکہ کسی بھی دن بیرونی افواج پاکستان کی سڑکوں پر “ہموی“ دوڑاتی پھر رہی ہونگی۔ پھر بھی یوم دفاع پاکستان مبارک ہو۔ اور کسی کے پاس اس صورت حال سے بچنے کا کوئی نسخہ ہو تو ضرور درج کرے۔