خود کش دھماکے معمول کی بات بن جائیں گے یہ سوچ سوچ کر ہی ہول اٹھتا ہے۔ ایک ہفتے میں دو مقامات پر اور دوسرے تو اتنے حساس مقام پر کہ کئی سوالوں اور خدشات کو جنم دیتا ہے۔ کہا جارہا ہے بلکہ تمام ہی ذرائع کے مطابق طالبان (پاکستان) نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ طالبان سے آپ لوگ واقف ہی ہونگے جو شہروں میں موت کا سناٹا طاری کر کے اسے امن کا نام دیتے ہیں۔ جو اپنے آپ کو اسلام سے نتھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں اور جن کی نظر میں انکی تشریح اسلام سے اختلاف رکھنے والا ہر شخص استعمار کا ایجنٹ، کافر اور واجب القتل ہے چناچہ باجوڑ میں امریکی، پاکستانی اور طالبانی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے بے گناہوں کی جانوں کا انتقام وہ میدانوں میں رہنے والے بے گناہوں کو مار کر لیں گے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کے طالبان کے مطابق ان حملوں میں ہلاک شدگان غالبا واجب القتل تھے کیونکہ اول تو کئی لوگوں کی داڑھیاں نہیں ہونگی، دوم وہ افواج پاکستان کے کسی ادارے میں کام کرتے ہونگے یا اس کے گردو نواح میں رہتے ہونگے۔
“اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بے گناہ کو قتل کرنے کا مطلب پوری انسانیت کا قتل مانا جاتا ہے“ اور شاید پوری انسانیت کے قاتل کے لیے اسی تعلیم کے مطابق دائرہ اسلام میں کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ اب یا تو ان حملوں کے ذمہ دار تمام مقتولین اور انکے لواحقین کو واجب القتل گرادانتے ہیں یا پھر بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے انسانیت کے قتل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب یہ کام تو مفتیوں کے کرنے کا ہے کہ اس قتل عام کا جواز تلاش کریں یا اسلام سے ایسے لوگوں کا ناطہ توڑدیں۔
یہ روش بہت خطرناک ہے۔ واہ فیکٹری پر حملے کے بعد مغربی میڈیا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے ان دہشت گردوں کے ہاتھوں چلے جانے کا مزید خطرہ ظاہر کرے گا اور وہ اس میں حق بجانب ہونگے کیونکہ اگر آپ ملک کی اتنی اہم تنصیب کی حفاظت نہیں کرسکتے تو اس بات کیا ضمانت ہے کہ ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں؟ اور خوانخواستہ واقعتا “تحریک طالبان پاکستان“ کے ہاتھ لگ گئے تو بعید نہیں کہ وہ اسے استعمال بھی کر ڈالیں کیونکہ “ردعمل“ کے لیے انکے “امیر“ نے ابھی مزید شہروں کے نام بھی لیے ہیں۔