کتنے آدمی تھے۔ بظاہر معمولی معلوم ہونے والا یہ جملہ شاید 15 اگست 1975 تک معمولی رہا ہو لیکن شعلے جیسی فلم کے بعد یہ معمولی نہیں رہا۔ اس جملے کو سنتے ہی کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں، گبر کے پیروں کی چاپ اور “تیرا کیا ہوگا کالیا“جیسا معرکتہ الآرا مکالمہ کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔ “ہم انگریز کے زمانے کے جیلر ہیں“ اور “ارے او سانبھا، کتنا انعام رکھے ہیں سرکار ہم پر“ جیسے مناظر آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں۔
لیکن میرا موضوع بلاگ شعلے نہیں ہے۔ میں ان عوامل کی تلاش میں ہلکان ہوئے جارہا ہوں جس نے ایک معمولی سے جملے کو اتنی قوت عطا کردی جسکی صرف ایک تکرار بوجھل ماحول کو تازہ دم کردیتی ہے اور کئی اوقات تناؤ بھرے ماحول میں آسودگی کا سامان۔ ان عوامل کے بارے میں متضاد آراء ہوسکتی ہیں۔ شاید درست وقت پر درست الفاظ کا انتخاب، یا پھر الفاظ کو بولنے کا انداز اور ہوسکتا ہے کہ سابقوں اور لاحقوں کی مضبوطی اس کے لازوال ہونے کا باعث بنی ہو۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو اور یہ صرف ایک عام سا جملہ ہو جو دوسرے خواص کے درمیان پھنس کر نمایاں ہوگیا ہو۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ گبر سنگھ کی شخصیت کے ساتھ اسکی وابستگی اسکی پہچان کا باعث ہو یا گبر سنگھ اور اس جملے کا باہمی ملاپ دونوں کی دائمی بقاء کا سبب۔ ایسا کیا ہے ؟ ایسا کیا ہے جسکی کمی ہے کے ہم “اتنے آدمی“ ہوکر بھی ایک “کتنے آدمی“ تخلیق نہیں کر پارہے ؟