کچھ عرصے پہلے عورتوں کے حوالے سے ہمارے ایک معاشرتی رویے کے متعلق ایک بلاگ تحریر کیا تھا۔کئی دوسرے اردو اور انگریزی بلاگرز نے بھی اس سلسے میں اپنا اظہاریہ تحریر کیا جسکی ایک جھلک آپ زیک وژن کی اس پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے کچھ برادران ملت نے اس بات کو دل پہ لے لیا بلکہ کئی ایک نے تو اپنے ذاتی تجربات اور کچھ نے آس پاس کے مشاہدات گوش گزار کیے اور یہ موقف اپنایا کے یہ خیال مکمل طور پر درست نہیں کے معاشرتی رویوں میں گھن کی طرح پسنا صرف عورتوں کے حصے میں ہی آیا ہے بلکہ ایسے کئی معاشرتی رویے اور ثقافتی اقدار ہمارے درمیان رچ بس گئی ہیں جن کی زد میں آکر مرد کی ذات بھی کرچی کرچی ہو جایا کرتی ہے۔
اگر ہم اپنے دائرہ کار کو بر صغیر تک محدود رکھیں تو کچھ مستثنیات کے علاوہ مجموعی طور پر مرد خاندان کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے۔ خصوصا شہروں میں بسنے والے لوگ جہاں ‘گھریلو عورت‘ کی اصطلاح ایک ایسی عورت کے لیے متعارف کرائی گئی جس کا دائرہ کار اپنے گھر تک محدود ہو اور اسکی ذمہ داریوں میں شوہر سے جڑی ہر چیز شامل ہو جس میں شوہر کا گھر، اسکے بچے اور خاندان والے بھی شامل ہیں۔ گو کہ بنیادی طور پر یہ عورت کی مظلومیت کو ہی ظاہر کرتی ہے لیکن اسکے پیچھے چھپی مرد کی بے کسی سے آنکھیں چرالی جاتی ہیں تاکہ ایک عورت کے استحصال کے نام پر عورتیں عورتوں کا مزید استحصال کرسکیں۔ بنیادی طور پر ایک اکیلا مرد عورتوں کے ساتھ بیٹا، بھائی اور شوہر نام کے قریبی رشتوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے جہاں اسکی ذرا سی لغزش اسکی جنت سے بے دخلی یا جہنم جیسی زندگی پر انجام پذیر ہوتی ہے۔ خصوصا شادی شدہ مردوں کے لیے یہ تین رشتے ایک ساتھ نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ عورتوں کے درمیان اس فطری چپقلش میں ایک غیر جانبدار ریفری کا کردار ادا کرنے والا مرد میرے نزدیک انتہائی درجے کا مظلوم انسان ہوتا ہے۔ جہاں وہ دن بھر کی محنت سے تھکا ہارا ایک لاچار ایمپائر کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے جسکا کوئی بھی فیصلہ تمام پارٹیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بسا اوقات اسکا درست فیصلہ بھی نافرمان بیٹا، جورو کا غلام، احسان فراموش بھائی یا زن مرید جیسے القابات کے بلے بھی اسکے سینے پر سجا دیتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا اجتماعی خاندانی نظام جہاں بہت ساری اچھائیاں لیے ہوئے ہے وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات نہ ہونے کے سبب اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے خصوصا شادی بیاہ کے معاملات میں مردوں کو بھی عورتوں کی طرح خوفناک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ گدھا باندھ کے گھوڑا ڈھونڈنے کا بے ہودہ عمل معاشرے میں اسقدر عام ہوچلا ہے کے مال و زر کے حصول کی کشمکش نے دن کا سکون اور رات کی نیند برباد کر کے رکھ دی ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش نے بھی مردوں کی اجتماعی صورت حال میں ابتری کی کیفیت پیدا کی ہے اور کئی مظاہر اس امر کے بھی ہیں جہاں عورتوں کی بے جا انا، ضد اور فرمائشی پروگرام کو پورا کرنے کے لیے مردوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام ذرائع آمدن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بہنوں کی شادیوں کے انتظار اور اس کے لیے وسائل جمع کرنے میں اپنی عمر کی شگفتگی تیاگ دینے والے مرد کی مظلومیت کا نوحہ پڑھنے والا ڈھونڈنے سے بھی ہمارے معاشرے میں نہیں ملے گا۔ جب تمام شادی کے قابل مردوں کی شادیاں موخر کی جاتی رہیں گی تو پھر عورتوں کے لیے بر کی تلاش کیوں کر کی جاسکے گی؟ اس سادہ سی جمع تفریق میں عورتوں کو نہ جانے کیوں برسوں لگ جاتے ہیں جس کے بعد نہ بیٹی کے لیے بر دستیاب ہوتا ہے نہ شادی اور بڑھاپے کے سہارے کے لیے بیٹا جو اپنی جوانی عورتوں کی خوشیوں کے لیے تیاگ دیتا ہے۔ خدانخواستہ میں قربانی کے جذبے کے خلاف نہیں لیکن ایسی قربانیوں سے خدا دور رکھے جو معاشرتی عدم مساوات اور معاشرے کے وسیع طبقے خصوصا نوجوان عورتوں اور مردوں میں ہذیانی کیفیت پیدا کرے۔ اور اس وجوہ کا بڑا سبب میں عورتوں کو قراد دوں گا کیونکہ ان معاملات میں عموما عورتیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور ڈھلتی عمر کے بھائی اور بیٹے کے لیے اسکے اپنے جذبات سے بے پرواہ ناک اور قد کی لمبائی اونچائی پر لڑکیوں کے ڈھیر کے ڈھیر ٹکھراتی جاتی ہیں اور آخر کار ایک بوسیدہ اور زندگی سے بیزار معاشرے کی تشکیل کرتی ہیں۔ عربوں میں اور مغربی تہذیب میں وہ لوگ جہاں خاندان کا ادارہ پوری طرح قائم ہے خاندان کے یونٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے ٹکروں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور شادی بیاہ کے مسائل میں ایک عاقل اور بالغ مرد و عورت کو اپنا فیصلہ کرنے کی تقریبا آزادی ہوتی ہے اور عموما فیصلے جبکہ وہ خاندانی نظام پر بٹہ نہ ہوں قبول کیے جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں دوسری شادی کی اجازت ہے وہاں اس مسئلے کو اتنا پیچیدہ نہیں بنایا گیا جتنا ہمارے معاشرے میں بنا دیا گیا ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کا نظام جو بنیادی طور پر خواتین کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا اسے خواتین کی بربادی سمجھ لیا گیا ہے اور اس صورت حال میں اگر کوئی مرد دوسری شادی کرلے تو ہمارا معاشرہ اسکا جینا تو کیا مرنا تک دوبھر کردیتا ہے اور اس میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ ذرا ایک ایسے گھر کا تصور ذہن میں لائیے جہاں دو بیویاں اور ایک ماں شام کو کسی مرد کے گھر آنے کا انتظار کر رہی ہیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کے کیا صرف عورت ہی مظلوم ہے؟ کیا عورتوں کے پاس میرے ان سوالوں کے جواب ہیں جو معاشرے میں خود کو جنم جلی، نازک کلی قرار دے ، آنسہ خود مختار بننے کی جدو جہد میں مصروف ہیں ؟ کیا خواتین وقت پڑھنے پر اپنی جنس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ساتھی مردوں کی ترقی میں مشکلات پیدا نہیں کرتیں؟ اور کیا یہ بھی مردوں کے معاشرے میں مردوں کا کیا گیا مرادانہ پروپیگینڈا ہے؟