معاشرے میں مرد و زن کے تعلقات کے حوالے سے “ہم عورتوں کو کیوں گھورتے ہیں“ اور “بیچارہ مرد“ کے عنوان سے کچھ گزارشات عرض کی تھیں جس میں دوسری شادی کے حوالے سے کچھ خواتین کے تحفظات سامنے آئے۔ زیر نظر مضمون میں میری کوشش ہوگی کے میں کثرت ازواج کے متعلق کچھ معروضات پیش کروں اور اس مقدمہ کی پیروی کروں کے کثرت ازواج دراصل ایک سہولت ہے جس کا مناسب استعمال معاشرے میں سکون کا باعث ہے نہ کے بگاڑ یا خواتین کے استحصال کا۔

سب سے پہلے تو ہم اس چیز کا جائزہ لیں کے دراصل عورت اور مرد کے اختیاری تعلق میں کثرت کی کتنی صورتیں ہوسکتی ہیں (ایک مرد ایک عورت، ایک مرد کئی عورتیں، ایک عورت کئی مرد اور کئی مرد اور کئی عورتیں) اور مختلف تہذیبوں میں انکی قبولیت کا کیا سلسہ رہا ہے۔ اس پہلو پر غور کرنے کا اہم مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے جسکے سبب عام طور پر لوگوں میں اور خصوصی طور پر خواتین کے حقوق کے علمبرداروں میں یہ خیال عام ہے کے کثرت ازواج کا خیال اسلام کا پیش کردہ ہے اور یہ خواتین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ حالانکہ صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے اور یہ کہنا کے اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے میری نظر میں انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت نہیں دی بلکہ چار سے زیادہ ازواج رکھنے پر پابندی لگادی ہے ۔ سب سے پہلی صورت حال تو سامنے کی ہے اور اس میں کسی کو کسی قسم کا تردد نہیں ہے اور خاندان کی بنیادی تعریف ہی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان رشتہ ہے ۔ دوسری صورت حال میں ایک مرد بیک وقت کئی عورتوں کو اپنے نکاح میں لے لیتا ہے جو انسانی تہذیب میں صدیوں پرانا طریقہ رہا ہے قدیم چینی، یہودیت، اسلام، عیسائیت، بدھ مت اور ہندو مت میں اسکے ثبوت ملتے ہیں اور یہ صورت کسی نہ کسی طور قابل قبول بھی رہی ہے بلکہ کئی تہذیبوں میں یہ غیر معمولی صورت حال تھی ہی نہیں جیسے چینیوں اور عربوں میں اور کثرت ازواج و اولاد اسٹیٹس سمبل کا درجہ بھی رکھتی تھی۔ اسکے بعد غیر معمولی صورت حال جس میں ایک عورت کی کئی مردوں کے درمیان شراکت جیسا کے تبت، نیپال اور چین کے کچھ علاقوں میں اسکی مثالیں ملتی ہیں یا اجتماعی شادی جہاں ایک سے زیادہ مردو عورت باہمی تعلق قائم کرلیں (یہ صورت حال بدرجہ خیال موجود ہے اسکے ثبوت نہیں ملتے اور کچھ فلمیں بھی اس قسم کی بن چکی ہیں جہاں اس قسم کے خاندان کا تصور دیا گیا تھا) ۔ اب تک کی بحث سے ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کے اجتماعی شادی اور عورت کی شراکت داری یا عورت کا ایک ساتھ کئی مردوں سے ازدواجی تعلق قائم کرنا معاشرتی اعتبار سے نہ صرف یہ کے کئی مسائل کو جنم دے گا بلکہ بنیادی انسانی فطرت بھی اسکی نفی کرتی معلوم ہوتی ہے اسی وجہ سے آزاد سے آزاد معاشروں میں بھی یہ قبول عام نہ ہوسکی۔ بقیہ دونوں صورتیں نہ صرف یہ کے انسانی ذہن قبول کرتا ہے بلکہ انسانی معاشرت کی بنیادی ترکیب بھی ان سے کسی صورت متاثر ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ بسا اوقات کثرت ازواج بہبود معاشرت کا کام ہی کرتی ہے۔ اس مقام سے ہم اپنی بحث کو سمیٹنا شروع کرتے ہیں جہاں ہم اس چیز کو سمجھ سکتے ہیں کہ 1۔ کثرت ازواج ایک نہایت قدیم انسانی تہذیبی عمل رہا ہے۔ 2۔ اسلام نے کثرت ازواج کی اجازت نہیں دی بلکہ تعداد ازواج محدود کردی ہے۔ 3۔ اسلام نے کثرت ازواج کے لیے جو شرائط نافذ کی ہیں وہ اوسط درجے کے مرد کے لیے پورا کرنا انتہائی مشکل ہے چناچہ اسلام نے کبھی کثرت ازواج کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے اس پر مکمل پابندی کیوں نہ عائد کردی گئی؟ اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کے جب وحی کے ذریعے کسی چیز کا راستہ بند کردیا جائے تو پھر قیامت تک کسی انسانی ذریعے سے اس پابندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس نکتہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک سوال اور اٹھاتے ہیں کے انسان شادی ہی کیوں کرتا ہے۔ ظاہر ہے نسل انسانی کو آگے بڑھانے اور اپنی جنسی اور روحانی خواہشات کی جائز ذرائع سے تکمیل کے لیے انسان شادی کا سہارا لیتا ہے۔ پھر دنیا کے کئی خطوں میں عورت کے لیے مرد کا ساتھ ایک طرح سے لازمی ہے چاہے وہ قانونی تقاضوں کے لیے ہو یا معاشی مجبوریوں کے لیے یا اولاد کی ذمہ داریوں کے لیے. ایک علحیدہ بحث اس سلسلے میں کی جاسکتی ہے۔ گویا تنہائی کی زندگی گزارنا مرد و عورت دونوں کے لیے مشکل کا باعث اور نفسیاتی و جذباتی ہیجان کا باعث ہے۔ خاص طور پر اکیلی عورت کے لیے اولاد کی پرورش بھی نہایت کٹھن ذمہ داری ہے جو مرد کے سہارے کچھ آسان ہوسکتی ہے۔

نوٹ :۔ درج ذیل پیراگراف کی لاجک میں بنیادی غلطی ہے چناچہ اسے بلاگ سے خارج مانا جائے گا ۔۔ تبصروں کے ریفرینس کے لیے اسے بلاگ میں رہنے دیا گیا ہے ِیواین کے اعدادو شمار فراہم کیے گئے ریفرنس سے میل نہیں کھاتے۔

ورلڈ پاپولیشن بیورو کے پچھلے سال کے آبادی کے اعدود شمار کئی نئے یا انوکھے نہیں ہیں۔ دنیا میں عمومی طور پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ رہی ہے۔ اوسط عمریں بھی مرد کی نسبت عورتوں کی زیادہ ہیں تو اس صورت حال میں جب کے مرد و زن کا تعلق ایک ضروری امر ہے اور رہبانیت اور دیو داسی عام انسان کے لیے قابل قبول نہیں کیونکر ہر عورت کے لیے ایک مرد میسر ہو؟ اگر کثرت ازواج پر بین الاقوامی پابندی عائد کردی جائے تو کئی عورتوں کے لیے مرد دستیاب ہی نہ ہونگے تو اس صورت میں کثرت ازواج کے مخالفوں کا عورتوں کو کیا مشورہ ہوگا؟ کیا وہ انہیں باوقار طریقے سے کسی مرد کے دوسرے نکاح میں آنے کا مشورہ دیں گے یا غیر فطری اور ناجائز ذرائع سے اپنی ضرورتوں کا حصول ؟‌ یا پھر انہیں بازار سجانے کا مشورہ زیادہ مناسب رہے گا؟ آپ مجموعی صورت حال کے تناظر میں قانون سازی کر کے کثرت ازواج پر پابندی لگا سکتے ہیں جیسے بھارت میں کئی جگہوں پر بیٹیوں کی پیدائش کو ابورشن سے روکنے کی وجہ سے عورتوں کی آبادی کی شدید قلت ہے۔ انسانی پابندیوں پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے انکی خرابیاں واضح ہونے پر ان میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے لیکن وحی کی پابندی تا قیامت ہوتی ہے۔ مذہب کی فراہم کردہ ایک سہولت کے نامناسب استعمال پر اسے خواتین سے زیادتی نہیں سمجھنا چاہیے اور مناسب طریقے سے دو شادیاں کرنے والے مردوں کو لعن طعن کرنے کے عمل اسے اجتناب کرنا چاہیے کے وہ معاشرے میں توازن کا باعث ہیں نہ کے خواتین پر ظلم کے مرتکب۔ معاشرتی عدم برداشت اور ثقافتی اقدار کے پیدا کردہ مسائل کو کثرت ازدواج سے منسلک کرنا کسی طور درست نہیں اور اسی وجہ سے کئی بیوائیں جو با آسانی کسی مرد کے نکاح ثانی میں آسکتی تھیں ان بے کار کی رسومات “سوکن“ اور “سوتیلی“ جیسی منفی اصطلاحات کی وجہ سے تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کو اپنے مجوعی رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے خصوصا پڑھی لکھی اور نوجوان خواتین کو جدید دور کے تناظر میں آبادی کے رجحانات کو سمجھنا ہوگا اور انہیں دوسری عورتوں کے ساتھ آئیڈیل گھروں کی تشکیل کرنی ہوگی۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کے دو خواتین کی آپس میں شادی تو انسانی آزادی ہے لیکن ایک مرد کی چھت تھلے دو عورتوں کا رہنا مغرب کو قبول نہیں، اسٹرپ کلب تو عورت کے لیے قابل قبول ہیں لیکن اپنے شوہر کے دوسری عورت سے جائز نکاح کو غیر قانونی اور غیر انسانی سمجھا جاتا ہے۔

 

روابط:

۔ وکی پیڈیا How Polygamy Works.
۔ ورلڈ پاپولیشن بیورو کی رپورٹ