کل شام ایک ملک کے صدر کے ساتھ انتہائی مصروف دن گزار کر گھر پہنچا تو اہلیہ نے بتایا کے امریکہ سے براک اوبامہ کا فون آیا تھا۔ براک اوبامہ سے میرے تعلقات برسوں پرانے ہیں ہم دونوں گرمیوں کی تپتی دوپہر میں کنچے کھیلا کرتے تھے اور ساتھ کٹارے توڑنے کے بعد نہر پر نہانے بھی جایا کرتے تھے۔ فون کرنے پر معلوم ہوا کے فوری طور پر حاضری کے متقاضی ہیں مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق فورا حاضر ہوا، اُسی گرم جوشی سے ملے مجھے پاس بٹھایا اور سامنے موجود ہیلری کلنٹن سے کہنے لگے کہ میں کوئی بڑا فیصلہ ان کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا۔ ہیلری سے بھی میری پرانی دعا سلام ہے انہوں نے بھی میرے لیے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا پھر میں نے الیکشن کے دنوں کی تلخی زائل کروانے کی اپنی بھرپور کوشش کی اور اپنے خاص تعلقات کی بنا پر دونوں سیاست دانوںکو اس بات پر قائل کیا آپس کی لڑائی چھوڑکر پارٹی کے مفاد کے لیے کام کریں۔ میرے ہی کہنے پر اوبامہ نے فوراَ ہیلری کو خارجہ سیکریٹری نامزد کردیا۔ پھر کئی مسائل زیر بحث آئے لیکن صحافیانہ مجبوری کے باعث میں اصل خبر یہاں نہیں لکھ سکتا بلکہ اصل خبر میرے پاس ہوتی ہی کہاں ہے؟ میرے تو بس تعلقات ہیں۔
دونوں بڑوں کا مسئلہ سلجھانے کے بعد میں نے اجازت چاہی دونوں نے پیر چھو کر آشیرواد لیا اور پھر میں ابھی باہر ہی نکلا تھا کے موبائل فون پر پیغامات کی یلغار ہوگئی۔ جان مکین فوری طور پر ملنا چاہتے تھے اور صدر زرداری بھی ممبئی کے ہونے والے دھماکوں پر میری رائے جاننا چاہتے تھے۔ جان مکین سے میری پرانی یاد اللہ ہے ہم دونوں کالج کے دنوں کے ساتھی ہیں اور زرداری سے ہمارے تعلقات تو جیل میںبھی قائم رہے مجھے یاد ہے کہ بینظیر شہید کے سانحے کے فوراَبعد انہوں نے سب سے پہلے مجھے فون کیا اور پوچھا یہ کس کا کام ہے میں نے عرض کی قسم لے لو میں نے آپ کا نام نہیں لیا۔۔ اوہ لیکن میں یہ ابھی کیوں بتا رہا ہوں یہ تو میرا کل کا کالم ہے ۔۔ خبر تو میرے پاس کوئی ہوتی نہیں مجھے اسی سے تو کالم چلانا ہے۔