اب آغاز قصے کا کرتا ہوں‌ ذرا کان دھر کر سنو۔ سیر میں‌ چہار جرنیل کی یوں‌لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ مملکت خداداد کے باشندوں کا تھا یہ کمال۔ بھیجے میں بھرے بھس دھرے عقل ٹخنوں میں یوں جرنیل کو بٹھا کاندھوں‌ پر بنایا مالک کل سیاہ و سفید کا۔ اس کے وقت میں رعیت برباد، جمہوریت بیوہ۔ چور اچکے، صبح خیزیے، بے پیندے کے لوٹے یوں خوش کہ اپنا کوئی مختار کل۔ راہی مسافر کی کیا مجال جو شکر اچھالتے جاتے ہر چوک پر پوچھا جاتا منہ میں دانت کتنے ہیں‌ اور کہاں‌کو جاتے ہو۔

سپاہ سالاری کا زعم دماغ میں‌سمایا تو چلتا کیا اپنے سے اوپر جو پایا۔ بس خدا کا تھا ایک سایہ جس تک پہنچنے نا پایا۔ سپوت اپنا چھوڑ گیا جو برسوں سینوں‌ پر مونگ دلتا جمہور کے غم میں‌ ڈھونگ کرتا۔ مملکت اتنی مردم خیز کہ بندگی کو ہزار بندہ ہمہ وقت دستیاب۔ کیا خدائی قانون کیا انسانی، اپنے کو عقل کل گردانتا جو من میں سماتی بات وہی قانون ٹہر جاتی، اس پر مہر ثبت کرنے کو خلقت ایک دربار میں امڈ آتی۔ جہاں‌پناہ نے دیا جب اقتدار کو طول تو طول و عرض میں مچی ہاہاکار، کتا کتا چلائے کیا طفل کیا جوان۔ اور آخر کو وہی انجام جو خدائی کی چادر کے دعوی داروں‌کا مقدر ۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ایک انجام کو پہنچا مگر سحر ابھی دور۔ تین جرنیلوں کا قصہ درویش کا ادھار۔