عید قرباں ویسے تو کئی حوالوں سے منفرد ہے خاص کر شہری لوگ ایک آدھ دن کے لیے جانوروں سے تھوڑا قریب ہوجاتے ہیں‌ اور تازہ گوشت کا مزہ بھی چکھ لیتے ہیں۔ عید پر سب سے بڑا مسئلہ قربانی کے جانور کی خریداری سمجھا جاتا ہے لیکن میرے لیے چرم قربانی اس سے کہیں‌ بڑا مسئلہ ہے۔ سلسلہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ آپ سارا دن کے تھکے ماندے جانور کی خریداری کے بعد گھر پہنچتے ہیں کہ اچانک گھر کے دروازے پر دستکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے غیر منظم کارکنان آپ کی گائے پر بری نظریں ڈالتے آپ کے گھر کا طواف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ شعیب صفدر صاحب سے معذرت لیکن مجھے شبہ ہے کہ اس برس کہیں وکلا تحریک بھی جج بحالی کے لیے چرم قربانی کی اپیلیں نہ کررہی ہو۔

‘انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی کھالیں یعنی اپنی قربانی کی کھالیں افتخار چودھری کو دیں’

قربانی کی کھالوں کے حصول کے لیے مکالمے بڑے مزیدار قسم کے ہوتے ہیں‌ مثلا کراچی میں کھالیں جمع کرنے کا مقابلہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے اور بسا اوقات تو نوبت مارم پیٹی تک آجاتی ہے اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار تحریکیں ثواب کمانے کی دوڑ میں‌ سبقت کے لیے ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں‌کرتیں۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ آپ جانور گھر لائے تو گلی کے کونے سے ہی بقول اردو اخبارات ‘ایک تنظیم’ کے دو کارکنان موٹر سائیکل پر ساتھ ہی ہولیتے ہیں۔ پھر ابھی جانور گاڑی سے ڈاؤن لوڈ بھی نہیں کیا کہ سوالات کی بوچھاڑ شروع۔

یہ گائے آپ کی ہے؟‌
بھئی ظاہر ہے ہمارے گھر کے سامنے اتر رہی ہے، دو مرد حضرات جو اسے اتارنے کی سعی کر رہے ہیں‌ ہمارے بھائی ہوا کرتے ہیں‌ اور گائے اتارنے چڑھانے کا سوشل ورک ہم نے کبھی کیا نہیں‌ تو ہماری ہی ہوئی۔

اچھا یہ رسید لے لیں۔
کیوں بھلا ہم نے آپ سے گول گپے کھا کر کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کی ہے جو رسید لے لیں ؟

نہیں جی یہ تو گائے کی کھال کی رسید ہے۔
ہیں؟ ابھی تو بھائی کھال گائے کے جسد پر مجسم موجود ہے اور دو دن تک ہمارا ارادہ ہے کہ گائے کو کھال میں ہی رکھا جائے کیونکہ کراچی میں بھی طالبانائیزیشن کا چرچا ہے اس پر ایسی فحاشی؟ پھر کاہے کی رسید ؟‌

بس جی اتنا کہا سنا بہت ہوجاتا ہے اور پھر ایک قہر آلود نظر آپ پر ایسی کے آپ کو اپنی کھال اترتی محسوس ہو شاید اسی بات کے لیے احمد فراز نے کہا تھا

اسنے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے۔۔۔۔
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا ‘مکان’ رکھ دیا

پھر محلے کی مسجد کے امام کی شمالی علاقوں میں موجود اپنے مدرسے کے لیے کھال کی اپیل، جماعت اسلامی، دعوت اسلامی، تحریک انصاف، فلاں سیاسی تنظیم اور فلاں سماجی تنظیم۔ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ اگلی بار گائے کے بجائے کھال خرید لائیں یا پھر مولانا صاحب کو اس دفعہ کی کھال دے کر کے ایف سی طریقے پر پالی گئی گائے کی قربانی کی حلالی کا فتویٰ جاری کرالیں اور پھر سب کو بولیں ۔۔ اب لے کے دکھا گائے کی کھال؟

مہذب قوموں کا ہر طریقہ تہذیب کا آئنہ دار ہوتا ہے لیکن اگر کوئی تہذیب اپنی بنیاد اور مذہبی فرائض کی پاسداری بھی زور زبردستی کے دائرے سے نکل کر نا کرسکے تو اس کی  بربادی اور بدحالی کے لیے بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہم خود قوم کے غریبوں کی مدد کے لیے قوم کی کھال اتار لیتے ہیں اسکے بعد نہ قوم بچتی ہے نہ اس کے غریب نہ امیر۔