راہ چلتے اچانک کوئی آوارہ آپ کے اوپر ایک ننگی گالی اچھال دے تو اس پر رد عمل مختلف قسم کا ہوسکتا ہے۔ مثلا ایک صورت میں آپ برابر کی برہنگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جس سے جواب آںغزل کا ایک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جس کا اختتام شاید ہی خفت کے سوا کچھ ہو۔ دوسری صورت میں آپ اس معاملے کو نظر انداز کرکے کیچڑ سے دامن بچا نکلتے ہیں اور تیسری صورت میں اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ مدمقابل کو حکمت سے قائل کیا جاسکتا ہے تو آپ اس سے بدکلامی کا جواز دریافت کرکے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں یا کم از کم اپنے عمل سے اس معاملے میں موجود دوسرے فریقوں پر یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ اس گالی کی حقیقت ایک آوارہ کے منہ سے نکلی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔ آپ کا رد عمل بنیادی طور پر اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آپ اس صورتحال سے کسطرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔
پچھلے کئی دنوںسے فیس بک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نپٹنے کے لیے کچھ ایسے ہی پیغامات کا سلسلہ چلاہوا ہے جنہیں آپ بنیادی طور ایسے رد عمل کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں جس کا براہ راست فائدہ ان ہی لوگوں کو پہنچے کا جن کے خلاف آپ کا احتجاج یا رد عمل ہے۔ مثلا ملاحظہ کیجیے ایک پیغام کا مفہوم "خاکوں کی اشاعت کے خلاف ہولوکاسٹ کی زیادہ سے زیادہ تصاویر اپ لوڈ کرکے ہٹلر سے اظہار یکجہتی کریں" بطور مسلمان رسول اللہ کے خاکوں کی اشاعت پر احتجاج کے لیے ہٹلر جیسے بدنام زمانہ اور نسل پرست انسان سے اظہار یکجہتی تو مجھے خود توہین رسالت معلوم ہوتی ہے اور نادان دوست کی وہ نادانی جو مخالفین کے بیان کیے گئے تمام جھوٹے دعووںکی توثیق کا باعث بن سکتے ہیں اور خدانخواستہ یہی چیز اگر بطور مثال پیش کردی جائے کہ مسلمانوں کے پاس رد عمل کے لیے ہٹلر کے عمل کی توثیق ایک مثال ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ایسے نادان دوست کچھ نا کریں۔ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں تشدد کی ایک لہر تو اس وقت اٹھی جب ڈینش اخبار نے اس مذموم عمل کا ارتکاب کیا۔ جب ہمارے اپنے ملک میں لوگوں نے اپنی ہی املاک نظر آتش کرکے ڈینش اخبارات کو سزا دی۔ وہاں ہر دوسرے درجے کے لکھاری کو اس بات کی تحریک بھی فراہم کی کہ پندرہ منٹ کی عالمی شہرت حاصل کرنے کا سب سے آسان نسخہ کیا ہوسکتا ہے۔ تازہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب امریکہ میں کیبل پر چلنے والے ایک چینل کامیڈی سینٹرل کے ٹی وی شو ساؤتھ پارک میں رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ ساؤتھ پارک میں کسی بھی مقدس ہستی کی شان میں گستاخی کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ عیسٰی علیہ السلام اس پروگرام کے باقاعدہ رکن ہیں جن کو انتہائی بھونڈے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور مذہبی عیسائی حلقے بھی اس بات پر نالاں رہتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ ان کا وار کارگر ثابت ہوا اور ایک ایسے مسلم گروپ جس کے کارکنوں کی کل تعداد مرحوم نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی سے بھی چھوٹی ہوگی ساری مسلم امہ کی آواز بننے کا ٹھیکا لیا اور ایک پروگرام جو بصورت دیگر دنیا کی بڑی آبادی کی نظروں میں نہیں آسکتا تھا اسے عالمی خبر کا درجہ دلا دیا اور اپنے لیے پندرہ منٹ کی شہرت بھی خرید لی۔ اور ہمارا مجموعی رویہ ایک ای میل فارورڈ کرنےسے زیادہ کچھ نہیں جس سے ہم اس بات کا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح تک یہ لنک پہنچ جائے اور وہ اس لنک پر کلک کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ یہ فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے اور کئی سطح پر منظم طریقے سے اس کے تدارک کے حل کی کوششیں کی جارہی ہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس کے تدارک کے لیے ان کے ساتھ شامل ہوا جائے۔ جان سے مارنے کی دھمکی دینا یا دھماکے سے اڑا دینا ہوسکتا ہے جنت کا شارٹ کٹ معلوم ہوتا ہو لیکن اس کا حتمی نتیجہ مخالف کے حق میں اور اسکی بات کی توثیق کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ عوام کی ہمدردی کا مستحق بھی ٹہرتا ہے۔ اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ لادین (خدا کے منکر) لوگ زیادہ تر اس کام میں ملوث ہوتے ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو تختہ مشق بنانے کے بجائے ان کے تعاون کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اظہار کی آزادی اور فتنہ انگریزی کے درمیان فرق روا رکھا جائے کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلم امہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر مذہب کی مقدس ہستیاں ان منکرین خدا کی لسٹ میں ہیں اور اس سلسلے میں دوسرے مذاہب کا تعاون حاصل کرنا نسبتا آسان ہے۔ اس مثال کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے اوپر گند بلا اچھالنے والی بڑھیا کے ساتھ رسول اللہ کا کیا رویہ تھا۔ اپنے چچا سے رسول اللہ نے ابو لہب سے بدلہ لینے پر کیا فرمایا تھا اور سفر طائف میں لہولہان ہوجانے پر بھی جبریل امین سے کس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ معاملات حکمت سے حل کرنے کی مثالیں ہیں۔ کیونکہ در اندازی کا یہ موقع فراہم کرنے میں ہماری کوتاہیاں ان کے ارتکاب سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص اپنی بد اخلاقی سے اپنے والدین کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے چاہے والدین کتنے ہی قابل اور اچھے کیوں نا ہوں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم خاموشی اختیار کریں اور ایسی چیزوں کو نادان دوستوں کی باتوں میں آکر مزید پھیلنے سے بچائیں اور جہاں تک ہوسکے اپنے عمل سے گالی دینے والے کی بات کو غلط ثابت کریں ناکہ اس کی بات کی توثیق کا باعث بن جائیں اور بدزبانی کا ایک عالمی مقابلہ شروع کربیٹھیں جس کے اختتام پر ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس تمغہ حسن کارکردگی ہو لیکن اس کے نتیجے کے طور پر آپ سیکڑوں خاکوں اور رسول اللہ کی شان میں گستاخیوں میں برابر کے شریک بھی ہوں گے۔