ایک طرف تو غیر قانونی طور پر معزول ججوں کو عدلیہ میں موجود کالی بھیڑوں کی طرف سے گھر خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف اپنے عہدے کی میعاد سے کہیں زیادہ منصب سپہ سالاری سے چمٹے رہنے کے بعد اسکی جان چھوڑنے کے بعد بھی صدر محترم آرمی ہاؤس خالی نہیں کریں گے۔ خبر کے مطابق اس سلسے میں 1975 کے بنے ہوئے قانون میں ضروری (غیر قانونی) ترمیم کی جارہی ہے یعنی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

پہلے پہل میں پرویز مشرف کے اقدامات کا مخالف رہا ہوں لیکن انکی ذات کے حوالے سے میں انہیں ایک دو ٹوک اور بھر پور شخصیت کا مالک سمجھتا تھا لیکن حالیہ دنوں میں انکے اقدامات اور بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی بیمار ذہن شخصیت کے کارنامے ہوں۔ ایک طرف تو ایسے ججز جن کے رہنے کے لیے کسی مناسب رہائش کا بندوبست بھی نہیں ہے انکو غیر قانونی طور پر معطل کرکے تازہ خبروں کے مطابق کمانڈو ایکشن کے ذریعے انکی رہائش گاہ خالی کرائی جائیں گی دوسری طرف غریب ملک کے شاہانہ اخراجات کے چشم و چراغ قصر صدارت کو توسیع دے کر آرمی ہاؤس بھی اسمیں شامل کرلیا گیا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کے پاکستان میں طاقت کے اسل سر چشمے عزت ماٰب چیف آف دی آرمی اسٹاف اپنے لیے کسی رہائش گاہ کے طالب نہ ہونگے۔ یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ کچھ سابق وزراء کو وزارت نہ ہونے کے باجود سرکاری گھر، گاڑیاں اور سیکیورٹی رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ایک طرح سے بحیثیت وزیر الیکشن لڑ رہے ہیں جس کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے تاریخی شفاف الیکشن ہوگیں۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ دراصل بیمار ذہنیت عدل و انصاف کے چاہنے والوں اور مانگنے والوں کو عبرت بنا دینا چاہتی ہے تاکہ دوبارہ کسی کے ذہن میں اسطرح کا بقول ایک بھارتی فلم “کیمیکل لوچا“ نہ ہو۔ امید ہے اور دعا بھی ہے اس وقت پاکستانی قوم عدل و انصاف کی بحالی کے لیے کوئی عذر نہ سنے اور ججز کی بحالی کو اپنا واحد نکتئہ جدو جہد بنا لے کیونکہ ججز دراصل چند اشخاص نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی کی ایک علامت ہیں انکو بحال کیے بغیر عدلیہ کی آزادی کے تمام دعوے اور کوششیں بے معنی ہونگی اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آج کے بعد کوئی جج انصاف کرنے کا سوچے گا بھی نہیں کہ جج بھی انسان اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور انسان اپنی تذلیل اور بے وفائی کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔