لیجیے جناب سفر تمام ہوا اور بخیر و عافیت دیار غیر واپسی ہوئی۔ وطن جانے کا اپناہی مزہ ہے لاکھ برا بھلا جانیں، الزامات لگائیں لیکن وطن وطن ہی ہوتا ہے۔ پورے ایک مہینے انٹر نیٹ سے تقریبا منقطع ہی رہا اور ایسا محسوس ہوا جیسے زندگی سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی گئی ہے لیکن صاحب ہم نے بھی تہیہ کیا ہوا تھا کے چھٹیاں چھٹیوں کی طرح گزارنی ہیں، نا موبائل فون رکھنا ہے اور نہ ہی انٹر نیٹ پر بلوں کے ادائیگی کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنا ہے، خاص طور پر بلاگ تو بالکل نہیں لکھنا۔
ویسے اس دفعہ کا سفر بہت ہی بھلا گزرا سوائے اس کے کہ وطن قیام کے دوران محترمہ کے انتقال پر ملال جیسا سانحہ دیکھنا پڑا۔ لاس اینجیلس سے پاکستان جانا ایسے ہی ہے جیسے دنیا کے گرد پورا ایک چکر لگانا۔ چاہے بحرالکاہل کے اوپر سفر کریں چاہے اوقیانوس پر۔ لاس ایجیلس سے لندن، لندن سے دبئی اور پھر دبئی سے کراچی ، ایک وقت تو ایسا آتا ہے کے آدمی چاہتا ہے جہاز سے چھلانگ لگا کر زمین پر اتر جائے۔ ویسے جو سب سے اچھا تجربہ رہا وہ لاس ایجیلس ائر پورٹ پر امیگریشن کے عملے کا رویہ تھا۔ میں نیویارک اور ہیوسٹن میں بھی امیگریشن کے مراحل سے گزر چکا ہوں اور جتنا بھیانک تجربہ نیویارک کا تھا اس کا بالکل الٹ یہاں ایل اے میں ہوا۔ یہاں تک کے میری زوجہ کی طبیعت لمبے سفر کی وجہ سے کافی خراب تھی تو خود عملے کے رکن نے اپنے کاؤنٹر سے جاکر اسے کرسی لاکر دی جسکا تصور بھی نیویارک ایر پورٹ پر نہیں کیا جاسکتا۔
اب زندگی پھر معمول کے مطابق ہے ۔۔ وطن قیام کے تجربات ایک سمندر پار پاکستانی کی حیثیت سے کیسے رہے مزید بلاگز میں شیر کروں گا خاص طور پر پاکستان میں عام زندگی میں ایک عجیب سی افراتفری در آئی ہے اس نے بہت ملول رکھا۔