جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکومت پر قابض رہنے کے جہاں کئی عوامل ہیں وہیں ایک سب سے بڑا سبب سیاستدانوں کے روپ میں فوج کے حامی بھی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے جائز اور مولانا فضل الرحمن کے ناجائز تعلقات تو کسی صورت ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن دوسری پارٹیاں جو بظاہر مشرف کی مخالفت میں ایسی کی تیسی کرتی نظر آتی ہیں اپنے عمل سے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام سر انجام دیتی ہیں جس کی مخالفت آج ملک کے طول و عرض میں جاری ہے۔

ابھی ابھی بی بی سی پر خبر پڑھی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر میاں بی بی متفق ہوگئے ہیں لیکن ججوں کی بحالی کے نکتے پر اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ذاتی طور پر میں بھی شخصیات کو مظبوط کرنے کا قائل نہیں ہوں اور اداروں کی مضبوطی کا حامی ہوں لیکن موجودہ صورتحال میں دیکھنا ہوگا کے کیا پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے ججز اپنی شخصی مضبوطی یا انا کی جنگ لڑ رہے ہیں یا وہ خود عدلیہ کی آزادی کے جنگ کے علمبردار ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک آزاد عدلیہ کا قیام پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو بحال کیے بغیر کس طرح ممکن ہے؟

جو بات سب سے زیادہ اچھنبے کی معلوم ہوتی ہے وہ میاں بی بی کی عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی کے حوالے سے ہچکچاہٹ ہے۔ میاں صاحب نے تو پھر بھی کسی حد تک دوٹوک موقف اختیار کر رکھا ہے لیکن بی بی اس معاملے میں انتہائی مبہم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کے جس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انہیں عرق آرڈیننس سے غسل دیا گیا ہے اس کی راہ میں ایک آزاد عدلیہ رکاوٹ بن سکتی ہے جیسے اس نے بینکر وزیر اعظم کی راہ میں دیواریں کھڑی کرکے ملکی وسائل کا ایک بہت اہم ستون پاکستان اسٹیل کو لٹنے سے بچایا۔

مجموعی طور پر جو تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے سیاسی جماعتوں کے لیے عدلیہ کی بحالی کی وہ حیثیت نہیں ہے جس طرح کی جدو جہد عوام اپنے تئیں کر رہے ہیں یا جسطرح کی عدلیہ پاکستان کی عوام چاہتے ہیں اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کے میاں بی بی ججوں کی قربانیوں کو ایک طرف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لے کر اسی سیاسی کشتی کا حصہ بننے جارہے ہیں جس سے ملک کی عوام کو سخت نفرت ہوچکی ہے۔