محترم دیسی لبرل، خالی صفات و سرکش دہر، آداب

نامہ دار کی حاضری ہوئی اور وصول پایا آپ کا رقعہ؛ رقعہ کہیے کہ حال دل، سچ پوچھیے تو دل سے شعلہ آہ نکلا؛ اسی سبب دن برباد اور طبعیت مضمحل پاتا ہوں، سوچتا ہوں خدمت باطل میں کچھ حق نذر کروں کہ مشیران اُبہت حق میں راقم کا درجہ اولیٰ ہے۔  "ہوسکتا ہے کہ فسق و فجور سے نکل کر گلشن ہدایت کی سیر کرو"۔

تشکیک کی پوچھتے ہو یا مرض کی خود تشخیصی سے واقف؟ تمہارا بنیادی مسئلہ تہائے ثلاثه ہی ہے؛ تشکیک، تحقیق اور تعمیر تمہاری ذہنی اپچ برخلاف نسخئہ آزمودہ وپسندیدہ یعنی تضحیک، تحقیر اور تنقید۔ قوت یقین کا اعدو شمار کے گورکھ دھندے سے کیا تقابل، علم زنگی سے آلودہ ذہن محض پردہ ظلمات کی تخلیق تک محدود رہتے ہیں۔ ہمارے ایسے آئینہ بند قلوب تاویل و منطق سے معقول نہیں ہوتےبلکہ ایسے شیطانی چکروں کو منعکس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ذہن تقلید کے لیے آمادہ و آراستہ؛ تم پرکھنے میں جان ہلکان کرتے ہو۔

میاں اپنی کہوں تو حال ادھر کابھی مخفی نہیں۔ فلسفہ و سوچ کا ماخذ کہنے کو کچھ، درحقیقت کفچئہ بیہوشی۔ آباء سے منسوب ہر حکایت، حدیث اور آیت میرا سرمایہ اور ان کا ملغوبہ میرا مذہب۔ خلقت مدہوش میری ملت، نقیب شاہان ماضی میری دولت، منافقت میری عدالت، حقائق میری عداوت، غلو میری طریقت اور بربریت میری شجاعت۔ اب اس صورت حال میں تمہارا یہ سوچنا کہ ہم ایسوں کو معقول کرو یا ہمارے پندو نصائح کی ہنسی اڑا سکو تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا شوریدہ سروبخت جواہر کی سوداگری پر مامور؛ الحاصل کہ تمہارے فلسفئہ باطل المعروف معترضانہ تفکر سے ہم کو کچھ سروکار نہیں؛ ہم اپنی لامکانی میں رہیں مست۔

خوش رہو
ایک دیسی قدامت پسند