سچ پوچھیے تو ہم بھی انقلابوں کے متاثرین میں شامل ہوئے جاتے ہیں؛ قصور ہمارا نا جانیے کہ ہم نے اپنی سی کردیکھی مگر کیا کیجیے کہ میلاد سے لے کر آج یہ سن آپہنچا مگر قبلہ انقلاب کو نا آنا تھا نا آن کے دیے۔ پہلے پہل تو بڑے رنگین قسم کے انقلابوں کا دبدبہ تھا کہ اُدھر سے کامریڈ سرخی پھیرتے چلے آتے تھے اور اِدھر سے مرد حق کے بانکے سبزہ سبزہ چلاتے وہ سماں باندھتے کہ مت پوچھیے؛ اب ایسے میں آسمان میں اُڑتوں کو ایشیا ہمیشہ جامنی ہی دکھائی دیا اور زمین میں رہتے اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے انقلابوں میں گم ہوکر وہاں پہنچے کہ اب ان کو کچھ اپنی خبرتلک نہیں آتی۔

دیکھیے گیان کے لین دین کی دکان بڑھائے مدت ہوئی؛ اب ذکر یار چلا ہے تو عرض کروں کہ انقلابی اور انقلابچی یوں کہیے کہ

پریتم ہم تم دو ہیں جو کہن سنن میں ایک ۔۔ من کو من سے تولیے تو یک من کبھو نا ہو۔

اب پیشہ ور انقلابچی اسے لفاظی کہیں گے اور سادہ دل؟ انقلاب، جبکہ قلندر کی اپنی ڈے جاب ہے۔  فیض کے نغمے بجا کر سبز انقلاب لائے جائیں گے اور درانتی پکڑا گائے اقبال کے ترانے؛ اب مُوا مورخ اسے انقلابازی نا لکھے تو خاک لکھے؟