غلامی اگر مکروہ قرار نا دی جاتی تو نواب صاحب کے صف شکن ماموں ہی قرار پاتے؛ وہی صوم و صلاۃ کی پابندی، منطق میں طاق، فلسفہ میں طاق الا طاق اور پھر بٹیر سی طبعیت۔ فرق صرف یہ کہ مولوی صاحب بھی معقول کرنے سے معذور۔ لیکن یہ سب مصاحبوں کے قصیدے نہیں بلکہ ماموں کا اقبال بڑائی سمجھیے کہ آپ کو قیاس و مشاہدے کی تہمت اٹھانے سے مکمل بری رکھتے اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور غیر معمولی شخصیت پر کھل کر آپ اظہار خیال فرماتے۔
دیکھیے دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر آپ کا گمان یہ ہے کہ اس قصے میں ناک، مچھلی کے کانٹے اور انکم ٹیکس کے دفاتر کے محل وقوع پر بالواسطہ بھی کوئی روشنی ڈالی جائے گی تو عرض ہے کہ ان دو قصوں میں سوائے ہماری شریر طبعیت اور بری صحبت کے کوئی قدر مشترک نہیں یا یوں سمجھیے کہ سجے آلی پالٹیوں کا خوف ثانی الذکر قصے کے سرسری تذکرے سے بھی ہمیں باز رکھتا ہے کہ ہماری دنیا دار نظروں کو راہ میں سوئے دار کے سوا ہر دوسرا مقام جچتا ہے۔
صبر کا پیمانہ تو ان صدیوں کی بات ہے جب فیس بکان متحرک ماورائی داستانوں کے حساب سے بھی بے پر کی مانی جاتی تھیں۔ اب تو بات صبر کے جوہڑوں تک پہنچ چکی ہے اور ماموں کے ذکر کثیف کا سبب ہمارے جوہڑوں کا رساؤ ہی سمجھیے۔ دیکھیے برداشت کی حدیں ہوا کرتی تھیں اب تو برداشت اور بے حسی کی بھرت (Alloy) کا دور ہے جو ہر بات سہنے، سننے اور بھول جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے لیکن اگر معاملہ اس بھرت کی سختی اور لچک سے بھی آگے بڑھ جائے توتیرا قلندر کدھر جائے؟