سائنس سے ہمارے تعلقات میں‌ دراڑیں تو اسی دن پڑ گئیں تھیں جب سائنس نے اس بات پر گمراہ کن اصرار کرنا شروع کردیا تھا کہ چاند پر پریاں تو کیا "میری پوسا" کی کوئی بھولی بھٹکی نسل تک دستیاب نہیں۔ آپ خود غور فرمائیں کہ  یہ کیونکر ممکن ہے کہ دادی کے اسی سالہ قیاس پر ہم محض دس سالوں‌کے سائنسی تجربات کو فوقیت دیں آخر سادہ ریاضی کے اصولوں کی بنیاد پر ہی تو سائنس کی پوری عمارت کھڑی ہے تو پھر سن کی اس عددی برتری کو مان لینے میں سائنس کو آخر کیا مسئلہ ہے؟

سچ پوچھیے تو ہم اپنی پوری زندگی عرشی زنانیوں کی مسحور کن داستانوں میں ہی گم رہے ہیں اور اس سبب اگر فرشی خواتین کو ہمارے رویوں میں ٹیڑھ محسوس ہوتا ہے تو بخدا یہ ہمارا پیدا کردہ نہیں عین ممکن ہے کہ دادی کو کسی سنگین غلطی کے سبب اپنی مہتابی ہمجولیوں سے بچھڑ جانا پڑا ہو اور اس کا بدلہ انہوں نے دنیاوی خواتین کے خلاف ہم مردوں کو بہکا کر چکایا ہو؛ لیکن یہ نا ہی ہمارا مسئلہ ہے اور نا ہی ہم اس بات کی تہہ تک جا کر خاکی عورتوں کو سر چڑھانے کے قائل ہیں۔ ہمارا اب بھی اسی بات پر کامل یقین ہے کہ حضرت آرم اسٹرانگ کو سنگین قسم کا مغالطہ ہوا ہے جس کے سبب وہ ہماری دادی کی حکایت کے یکسر الٹ کہانی سناتے رہے ہیں اور اگر یہی سائنس ہے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

یوں‌تو "پینڈورا" کی حکایت پر ایمان لانے سے مفاہمت کی ایک راہ نکالی جاسکتی ہے لیکن اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں کے لوگ کسی بھی ایسی چیز پر اتنا بھروسہ نہیں کرسکتے جس کے مستقل استعمال کے لیے بجلی کی فراہمی اولین شرط ہو۔ یہ بات ہمیں کسی صورت گوارا نہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے سبب ہماری ’ناوی‘ سہیلیاں دن کا بڑا حصہ ہمارا اوتار جنگلی جانوروں سے بچانے میں گزاریں پھر ہماری مشرقیت کا سارا دارومداربھی دم پر ہے نا کہ دُم پر۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی بار بارودی جیکٹ پہنے اور ایک جھٹکے میں بہتّر کے پہلو میں۔