افق کے داہنے جانب کی انتہا پسندی پر تو ایک عالم میں شور برپا ہے لیکن بائیں بازو کی انتہا پسندی بھی اب پوری طرح‌ کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ اگلے دنوں فرانس کے رہنما نے برقعے کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا اور ان کے نزدیک برقع مذہبی علامت نہیں بلکہ ماتحتی یا پسماندگی کا نشان ہے اور اس سے عورت کی تکریم نہیں بلکہ تذلیل مقصود ہے۔ فرانس کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور اس بات کا عندیہ دیا کے فرانس میں برقعے کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا اور اس طرح کے اشارے بھی دیے جارہے ہیں کہ برقعے یا دوسرے لفظوں میں حجاب کے استعمال کے خلاف قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی دوران جرمن شہری کی طرف سے حجاب استعمال کرنے پر ایک خاتون کو نفرت کا نشانہ بنانے اور بھری عدالت میں قتل کرنے کا واقعہ بھی خبروں میں نمایاں رہا ہے۔ فرانس میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور جسطرح‌ تعلیمی ادراوں کے باہر کھڑے منتظم زبردستی طالبات کے اسکارف اتارتے نظر آئے وہ نظارے بھی سرعام کوڑے برساتے طالبان سے کسی طور مختلف نہیں۔

دونوں طرف کی شدت پسندی کا تقابل کرنے اور ان میں‌یکسانیت تلاش کرنے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انتہا پسندی کو دائیں اور بائیں میں تقسیم کرنے کا سلسہ بھی ختم کیا جانا چاہیے کہ سولہویں صدی کی سوچ رکھنے والے انتہا پسند طالبان ہوں یا جدید تراش خراش کے سوٹ زیب تن کیے فرانسیسی خوشبوؤں میں رچے بسے اکیسویں صدی کے طالبان دونوں ہی اعتدال اور انسانی آزادی کے لیے یکساں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ان انتہا پسندوں کے دماغ میں یہ بات نا معلوم کیوں نہیں‌سماتی کے برقع، حجاب، داڑھی محض ایک اختیاری چیز ہے اور اس کا اختیار انسان کو دے دینا ہی اصل روشن خیالی ہے۔ عورت کو خود فیصلہ کرلینے دو کہ اسے شٹل کاک برقعہ پہننا ہے، اسکارف سے حجاب لینا ہے، صرف دوپٹے سے کام چلانا ہے یا محض سادہ لباس زیب تن کرنا ہے۔ مردوں کو خود فیصلہ کرنے دو کہ انہیں داڑھی ایک مشت رکھنی ہے، ہلکی رکھنی ہے یا بالکل کلین شیو رہنا ہے۔

ایک طرف ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے ظاہر ہونے پر کوڑے کڑکڑاتے طالبان سوار ہیں تو دوسری طرف محض اپنے بالوں کو حجاب میں لینے والے والی خواتین کے سر پر قانون کی تلوار لیے لباس نوچ لینے کو بے قرار طالبان اور دونوں‌ کو اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں‌ کہ حوا کی بیٹی اختیار کی آزادی چاہتی ہے لباس کی نہیں۔ اسے قبولیت کی تکریم درکار ہے پانٹ سوٹ پہنے کی آزادی نہیں۔ جمہوریت کی آڑ‌ میں انسانی آزادی کے دشمن نکولا سرکوزی اور اسلام کا لبادہ اوڑھے  بن لادن کی سوچ میں دیکھا جائے تو کوئی خاص فرق نہیں دونوں ہی دستیاب طاقت کے بل پر انسانی آزادی چھین لینے کے درپے ہیں۔