کھانا پینا انسان کی فطری مجبوری ہے، کیا کھانا، کب کھانا اور کتنا کھانا اختیاری چیزیں ہیں اور جس چیز میں قدرت نے انسان کو اختیار دے رکھا ہو بندوںکو زیب نہیں دیتا کہ قدغن لگاتے پھریں۔ انسان کی رحمانی صفت تو اس وقت ظاہر ہوتی جب وہ دسترخوان دراز کرتا ہے؛ کچھ لوگ روکھی سوکھی کھلا خوش ہو رہتے ہیں جبکہ چند قدرت کی نعمتوں کا ایسا مرکب تیار کرتے ہیں کہ دسترخوان کی ہئیت بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر آپ اردو بلاگستان میں تانکتے جھانکتے رہتے ہیں تو ہمارے دو محترم بلاگرز سے ضرور واقف ہوں گے جن کے دسترخوان ہمیشہ سجے رہتے ہیں۔
ایک تو بلاگر شاہدہ اکرم ہیں جنہیں دنیا شاہدہ آپی کے نام سے جانتی ہے اور دوسرے ہمارے جعفر بھائی ہیں جن کی طرف رخ ابھی کچھ ثانیے میں ہوا چاہتا ہے۔ شاہدہ صاحبہ کے کھانوں کی تراکیب کے پکے کھانے کھانے والا مہمان تو گھر کے سامنے ہی خیمہ زن ہوجاتا ہے، ادھر چمنی سے دھواں اٹھتا دیکھا ادھر ہلہ بول دیا۔ یہ تو شکر ہے جعفر صاحب کا کہ ان کے دسترخوان کا ایک ہی سیال سال بھر کے لیے میزبانی کے کٹھن امتحان سے نجات کا باعث بن جاتا ہے ہاں یہ علحیدہ بحث ہے کہ مہمان شہید کہلائے گا یا جاں بحق۔ جعفر کے دسترخوان کی ایک بڑی خوبی اس کا گرین ہونا ہے۔ گرین سے قطعا یہ مطلب نہ نکالیں کہ وہ سبز پتوں کی سلاد کے سوداگر ہیں بلکہ یہ اُس گرین کا تذکرہ ہے جس کی بسیں ابھی چلنا باقی ہیں۔
اگر آپ کے گیراج میں پرانی گریس موجود ہے، گاڑی سے آئل لیک کرتا ہے، سائیکل کے ٹائر کی ٹیوب سالوں سے بیکار پڑی ہے، پڑوسی کی مرغی خود چل کر آپ کے گھر آپہنچی ہے اور ذبحبالرضا کے لیے تیار ہے، چائنا کے بنے الیکٹرانکس آپ کے لیے باعث ندامت بن رہے ہیں یا آپ ایک ساس ہیں اور بہو کباب بنانے کی مناسب تراکیب سے بے بہرہ ہیںتو جعفر کے دسترخوان میں ان تمام چیزوں کے مناسب استعمال کے لیے تراکیب موجود ہیں۔ آپ بلیڈوںکی بریانی، گریس کا قورمہ، بہو کے تکے، چائنا موبائل فیرنی، مرغ جلاؤ، لہسن کا شربت، کریلے کا کسٹرڈ، آلو کی پیاز اور پیاز کا آلو انتہائی آرام سے بنا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کئی ایک کھانے باعث دست اندازی پولیس بھی ہوں لیکن چھری بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے برا بناتا ہے اسی طرح کھانوں کے استعمال بلکہ در استعمال میں احتیاط برتی جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
جعفر کے دسترخوان کی سب سے بڑی خوبی اس میں کھانوں کی کاملیت ہے۔ بھوک آور اشیا، اصل غذا اور میٹھا۔ تین درجوں میں آپ مہمان کی ظاہر و پوشیدہ حسوں کو پوری طرح بھنبوڑ کے رکھ سکتے ہیں۔ کمزور حلق حضرات تو گرمی کی شدت دور کرنے کے مشروبات لبوں تک لانے کی حسرت دل میں لیے ہی راہ عدم سدھارتے ہیں اور جو بچ رہتے ہیں میٹھا آنے تک کی اذیت میں حواس کھو کر قلندری کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں اور تاعمر خواری خوردن سے نجات پاتے ہیں۔ کہتے ہیں جوکھم اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں اور جو جیتا وہ سکندر، آزمائش شرط ہے بس اتنی تبدیلی کرلیں کہ جو جی رہا وہ سکندر۔