مولانا فضل الرحمن ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے بارے میں آپ کبھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے خلاف۔ وہ حکومت میں رہ کر اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر وزارت کے مزے لوٹتے ہیں۔ اپنے فن میں اتنے طاق ہیں کہ اپنی ذات میں ایک انجمن بن گئے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مولانا اب صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک کیفیت بن چکے ہیں۔ کئی سیاستدانوں، مذہبی جماعتوں، کالم نگاروں اور عام لوگوں پر آج کل مولانا کی کیفیت طاری ہے۔
اس کیفیت کے اثرات کے زیر اثر اکثر لوگوں کا پتہ ہی نہیں چل رہا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے خلاف۔ کبھی طالبان کے دکھ میں روتے ہیں، کبھی پاکستان کے۔ کبھی طالبان کے نعرے مارتے ہیں اور کبھی گو طالبان گو کے۔ کبھی طالبان کے خیالات پر تف کرتے نظر آتے ہیں کبھی ان کی پذیرائی میں طالبان سے زیادہ طالبان کے وفادار ہوجاتے ہیں۔ میرے عزیز ہم وطنوں اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کرلو۔۔ طالبان اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ طالبان چلنا ہی نہیں چاہتے۔۔ اب یا تو آپ طالبان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے۔ ورنہ مولانا ٍفضل الرحمن۔