لوگ کیا کہیں گے؟‌ یہ فقرہ ہم میں سے کسی کے لیے اجنبی نہیں یہ وہ سریلا منتر ہے جس کے سحر میں‌کم و بیش دنیا کا ہر معاشرہ گرفتار ہے اور "لوگوں" کے اس بت کی خوشنودی کے لیے نامعلوم کن کن چیزوں کی بلی دی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر غور کریں تو ہمارے بہت سارے چھوٹے بڑے فیصلوں‌ میں لوگوں کی خوشنودی کو اولین درجہ دیا جاتا ہے چاہے اس کے لیے اولاد کی خوشیاں، رشتہ داروں کی قربت، دوستوں کی صحبت، پڑوسیوں کے جذبات اور اپنی پسند کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔

یہ "لوگ"‌ کون ہیں جن کا کہا اتنا اہم ہے کہ انسان صرف اس ایک بت کی خوشنودی کے لیے اپنا آپ تیاگ دینے پر تیار رہتا ہے؟‌ یہ "لوگ"‌ کون ہیں‌ جو انسان کو اس کی بساط سے دس گنا خرچ کرنے پر اکساتے ہیں، بھائیوں کو بہنوں کی جان لینے پر آمادہ کردیتے ہیں، انسان کو جلتے کوئلوں پر چلنے پر مجبور کردیتے ہیں، باپ کے ہاتھوں بیٹیوں کی قبریں کھدواتیں‌ ہیں، پھول جیسی معصوم بچیوں کو رشتے داروں کے جرائم کا کفارہ بناتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے بعدبھی یہ "کہنے" سے باز نہیں‌ آتے۔

کیا ہم خود اس بت کا ایک عضو نہیں؟‌ ہم ہر اس چیز پر دوسرے کی تان اڑاتے ہیں جو ہماری اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ لوگوں کا یہ بت ہمارا مشترکہ تراشیدہ ہے، اس کی ہر آنکھ، ہر ہاتھ، ہر خم اور ماتھے پر بنی ہزار لکیروں میں ہمارا ہی چہرہ ہے ہر اس بت کی طرح جو اپنی بقا کے لیے پجاریوں کا محتاج ہوتا ہے، جس کی طاقت پجاریوں کے یقین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ یقین اس بت کو اتنی قوت عطا کردیتا ہے کہ یہ کوئی زندہ جاوید حقیقت معلوم ہوتا ہے اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات کے ساتھ۔