صورت حال یہ ہے کہ کھال اترنے والی ہے لیکن اس سے پہلے نئی کھال یعنی شیروانی تیار کرلی گئی ہے۔۔ عدلیہ کو شدت پسندوں سے پاک صاف کردیا گیا ہے اور عدلیہ نے ایک دفعہ پر تجدید عہد وفا کرلیا ہے ۔۔ کوئی لمحہ ہے جب صدر صاحب شیروانی میں جلوہ افروز ہونگے پھر عرض کریں گے میرے عزیز ہم وطنوں ۔۔

ادھر سیاہ ست دانوں کو الیکشن الیکشن کے کنچے دے دیے گئے ہیں ۔۔ بی بی اور میاؤں سے لے کر چودھری اور شیخوں تک سب نے ہی الیکشن میں حصہ لے کر اس کو قانونی قرار دے دیا ہے ۔۔ اور بی بی نے تو کہہ بھی دیا ہے کے جہاں میں جیتوں وہاں الیکشن درست اور جہاں کوئی اور جیتے وہاں دھاندلی۔ میاں صاحبان نے سوچا ایسا نہ ہو کے یہ الیکشن ہاتھ سے نکل گئے تو دوبارہ اسمبلی میں بیٹھنے کی آرزو میں کہیں نئے بال بھی نہ جھڑ جائیں۔۔ ادھر حکومت سے ناجائز تعلقات رکھنے والے مولانا صاحب نے فرمادیا ہے کہ جو الیکشن چھوڑے گا عوام اسے مسترد کر دیں گے ۔۔ مولانا صاحب لگتا ہے اس جہاں میں تو آپ وزیر اعظم بننے والے نہیں اب مصلی پکڑیں اور اگلے جہاں کے لیے کسی سلطنت کا بندوبست کیجیے۔۔

لیجیے صاحب کپتان نے تو ہاتھ چھوڑ دیے ۔۔ دے مار ساڑھے چار۔۔ کاغذات نامزدگی پھاڑ۔۔ الیکشن کا بائیکاٹ۔۔ کھرا آدمی لگتا ہے ۔۔ لیکن سمجھ گیا کے اس دفعہ ایک سیٹ بھی ملنے والی نہیں ۔۔ اور اپنے قاضی صاحب کے ساتھ تو مولانا نے وہ ہاتھ کیا کے انکی اپنی جماعت انکے قابو سے نکل گئی۔۔لونڈوں بالوں نے کپتان کی درگت بناتے بناتے عزت سادات بھی لٹادی۔۔ قاضی صاحب ذاتی طور پر الیکشن لڑنا نہیں چاہتے لیکن اجتماعیت کا تقاضا ہے کے الیکشن لڑاجائے۔۔

ارے اپنے چودھری صاحب کا کیا بنا؟ کون سے چودھری ؟‌ ارے وہ عدلیہ کے پنڈ کے چودھری ؟‌ انکا کیا ہونا ہے ۔۔ بیٹھے رہیں گے تصور جاناں کیے ہوئے۔۔ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔۔ بھیا اس قوم کا پتا نہیں تھا کیا؟ ہیرو سے زیرو کرنے میں ایک دن نہیں لگاتے۔۔

اچھا میڈیا کا کیا ہوگا۔۔ ہونا کیا ہے۔۔ آجائیں گے لائن پر۔۔ جیو سے مرو۔۔ آج سے کل ۔۔ اور اے آروائی ون سے زیرو ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔۔

اور عوام ؟‌

لو کر لو بات۔