فاقہ مستی کے رنگ لانے کا چرچا تو بہت سنا تھا، محض ایک ظہرانے کا ناغہ اتنا رنگ بکھیرے گا کہ علم دوستی سے علم گوشتی تک سلوک کی تمام منازل یک بیک طے ہوجائیں گی یہ تجربہ نیا تھا اور صرف احساس کی زبان میں ہی سمجھایا جاسکتا ہے۔ اب تک یار غار کے نایاب کتب خانے کو کشش مانتےاپنے آپ کو علم دوست ہی سمجھتے رہے لیکن ایک دن کبابوں کا ناغہ شکم پر اتنا بھاری ہوا کہ فلسفہ کی دلچسپ کتب کا دیباچہ بھی بھاری پڑ گیا۔ وہ جو علامہ نے عقل و دل کے چور سپاہی والے کھیل کی روداد بیان کی اور شکم کو دانستہ موضوع بحث نہیں بنایا تو وہ عقدہ بھی آج کھلا کہ تن و من کی بصارت سے تھوڑا جنوب کا سفر کیا جائے تو شکم کی بے باک نگاہیں پڑھی جانے والی ہر سطر میں ایک نئی کہانی بیان کرتی ہیں۔
سیرشکم اس علم گوشتی کا اثر محسوس کرنا ممکن نہیں؛ "طاؤس و رباب" اور"شراب و کباب" کی اصل ترتیب ایسی ہی حالت میں سمجھ آتی ہے کہ اُس وقت اگر ماہر موسیقار الٹا لٹک کر بھی رباب کی تاریں گھس رہا ہو تو غسل دجاج کا سا سماں معلوم ہوتا ہے۔ کوئی کہہ گیا کہ خواب ٹاٹ پر دیکھیں یا مخمل پر مناظر نہیں بدلتے؛ حالانکہ شکم سیری کی شرط حکایت سے منسوب رہنی چاہیے کہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ بھوکے پیٹ سرمایہ دار کے خواب کا ہر منظر بھی درانتی لیے دوڑا چلا آتا ہے۔ شکم کی نظریں وہاں تک جاتی ہیں جہاں من کے پر جلتے اور تن کی آنکھیں چندھیاتی ہیں۔ فلسفہ کا پوچھو تو استحصالی نظام کی بات کروں، اشتراکیت سے سرمایہ داری کا فاصلہ محض ایک پر تکلف عشائیہ ہے۔