سافٹ ویر پائیریسی کے حوالے سے یاسر عمران مرزا نے اپنے بلاگ میں کچھ نکات پیش کیے۔ افتخار اجمل صاحب نے اگلے روز اپنے بلاگ میں اسی سلسلے میں اپنا موقف بیان کیا اور اسی روز باذوق نے بھی اپنے بلاگ میں اس سلسلے کو موضوع بنایا۔ بلاگرز کے ساتھ ساتھ مبصرین نے بھی اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور متعلقہ اور غیر متعلقہ حوالاجات اور دلائل سے اپنے موقف کا خوب دفاع کیا۔ اب تک کی بحث میں چار مختلف قسم کے خیالات پیش کیے گئے ہیں۔
- اول وہ لوگ جو سافٹ ویر پائیریسی کو کلی طور غلط مانتے ہیں اور اسے چوری ہی سمجھتے ہیں۔
- ایک حلقہ سافٹ پائیریسی کو کسی طور غلط نہیں سمجھتا اور اسے کسی بھی جرم کا درجہ دینے کے خلاف ہے۔
- ایک طبقے کا کہنا ہے کہ استحصالی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے پائریسی وقت کی ضرورت ہے۔
- اور ایک مختلف فکر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ سافٹ ویر لائسنسنگ پالیسیز انتہائی ظلم پر مبنی ہیں اور وہ ان پالیسیز کے خلاف ہیں لیکن پائیریسی کو بہر حال غلط سمجھتے ہیں۔
یہ مضمون ضرورت سے زیادہ طویل ہے اس کے باوجود کئی پہلو زیر بحث نہ آسکے۔ میری گزارش ہوگی کہ اپنی رائے کے اظہار سے پہلے مضمون کو مکمل پڑھا جائے اور ساتھ ساتھ ان بلاگز کو جن کے لنک پہلے پیرائے میں فراہم کیے گئے ہیں۔
ذاتی طور پر میں اولین مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں اور کسی بھی دوسری چیز کی چوری کی طرح ٹیکنالوجیز اور غیر مادی اشیاء کی چوری اور ان کے غیر قانونی استعمال کو غلط سمجھتا ہوں اور اسی نقطہ نظر کی حمایت اس پوسٹ کا اولین محرک ہے۔ اس پوسٹ کا مقصد محض دلائل سے اس بات پر قائل کرنا ہے کہ سافٹ ویر پائیریسی دراصل چوری ہی ہے جو دینی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے ایک مکروہ اور قابل دست اندازی قانون فعل مانا جاتا ہے۔ اس پوسٹ کا دائرہ کار سافٹ ویر تک مخصوص رکھا گیا ہے لیکن کئی دلائل کا اطلاق دوسری ڈیجیٹل پراڈکٹس پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
کئی لوگوں کے نزدیک سافٹ ویر کی مادی حیثیت ایک سی ڈی تک محدود ہے اور اس غیر مادی حالت میں ہونے کی وجہ سے وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس طرح آپ کے کمپیوٹر سسٹم میں لگا پراسسیسر، مدر بورڈ، ہارڈ ڈسک اہم ہیں اسی طرح ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جانے والا سافٹ ویر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح باقی چیزوں کی مختلف کوالٹی آپ کے کمپیوٹر سسٹم کی قیمت کے اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی ہیں اسی طرح سافٹ ویر کا چناؤ بھی کمپیوٹر سسٹم کی قیمت کا حصہ ہی ہوتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ ایک غیر مادی حالت میں موجود ہے آپ اس کی چوری کو جائز نہیں کہ سکتے۔ جس طرح باقی چیزوں کی تیاری اور ترسیل میں ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے سافٹ ویر کی تیاری اور ترسیل تک کے مرحلہ میں اسی طرح کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر جائز یا ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔ اگر ایک پراسیسر کی قیمت آپ کی قوت خرید سے باہر ہو یا آپ کے نزدیک انتہائی زیادہ ہو یا آپ کے نزدیک انٹیل نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے تو کیا اس پراسیسر کو چرالینا آپ کی نظر میں درست ہے؟ اگر نہیں تو سافٹ ویر کو بھی اسی درجے میں رکھ کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر اس کی قیمت جائز یا ناجائز ہماری جیب سے تجاوز کرتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کسی بھی چیز کی قیمت چوری کا جواز نہیں بن سکتی۔
دینی نقطہ نگاہ سے اگر ہم مذہب اسلام کو دیکھیں تو یہ بات ہمارے لیے باعث خوف بننی چاہیے کہ چوری انتہائی مکروہ فعل مانا جاتا ہے اور اس کی انتہائی سزائیں بہت سخت ہیں۔ ذاتی طور پر میں ان فتاوی کے حق میں نہیں جس میں کس بھی بنیاد پر چوری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس موقف کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط والے واقعے سے دی جاسکتی ہے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھوک کی وجہ سے چوری پر حد جاری نہیں کی لیکن جرم کا ارتکاب بہر حال ہوا اور کسی نے محض قحط کی وجہ سے چوری کو جائز قرار نہیں دیا۔ یہ بات نہایت اہم ہے اس لیے اس کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کسی حرام فعل کو جائز قرار دینا اور بات ہے اور کسی مخصوص حالت میں حد جاری نہ کرنا اور بات۔ اور میرے ناقص مطالعہ کے مطابق کسی بھی حالت میں دین اسلام میں چوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ کئی مواقع پر سخت حالات کی وجہ سے محض حد جاری نہیں کی گئی اور اس سے اگر کوئی یہ مطلب نکال لے کہ نامساعد حالات میں جرم کرنے کی اجازت ہے تو یہ بات ناقابل قبول اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے مزید یہ کہ "نامساعد حالت" کی تشریح شخص پر چھوڑ دینا تو ایک قانونی سقم ہوگا اور کئی جرائم کے لیے اس بات کو جواز بنایا جائے گا۔
معاشی نقطہ نگاہ سے کسی بھی کاروبار کا بنیادی مقصد نفع حاصل کرنا ہی ہوا کرتا ہے۔ کارپوریشنز اپنے منافع کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کارپوریشنز کے اس اثر رسوخ کے رد یا کاؤنٹر کے لیے ہر ملک میں صارفین کی تنظیمیں اور سرکاری ایجنسیاں ہوتی ہیں جو بلا جواز شرائط اور کارپوریشن کے غیر مقبول افعال پر براہ راست قانونی چارہ جوئی یا عوام کو اس سلسلے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ یورپی یونین میں بغیر میڈیا پلیرز کی ونڈوز اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر کسی کو کارپوریشنز کے استحصالی نظام سے اختلاف ہے تو اس کے لیے بہترین حل قانون سازی اور صارفین کا اتحاد ہی ہوسکتا ہے نہ کہ سافٹ ویر کی چوری۔ آئیڈیل صورت حال میں تو یہ سلسہ توازن میں رہنا چاہیے لیکن کسی بھی نظام کی طرح اس میں بھی سقم موجود ہیں جس کی وجہ سے کہیں کارپوریشنز کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور کہیں صارفین کو کارپوریشنز کی بے جا شرائط کو ماننا پڑتا ہے۔ جو بات اہم ہے کہ اگر آپ کسی بھی سافٹ ویر کو استعمال کرنے کی شرائط تسلیم کرتے ہیں تو اس کے بعد اس کیے گئے وعدے کی پاسداری بھی قانونی، مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے اہم ہے۔
آخری بات جس کو جواز بنایا جاتا ہے وہ "مجبوری" ہے۔ اول تو آج کی تاریخ میں کسی بھی سافٹ ویر کو استعمال کرنا مجبوری نہیں۔ کوئی بھی عام استعمال کا ایسا کمرشل سافٹ ویر موجود نہیں جس کا متبادل اوپن سورس، میعاری اور مفت سافٹ ویردستیاب نہ ہو۔ لہذا مجبوری بھی کسی صورت جواز نہیں۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں انٹر نیٹ کا استعمال نیٹ اسکیپ کے ذریعے کیا جاتا تھا، مائکروسافٹ نے اس کو ختم کرنے کے لیے انٹر نیٹ ایکسپلورر ونڈوز میں شامل کردیا جس سے براؤزر مارکیٹ میں اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ اس اجارہ داری کو پسند نہ کرنے والوں کے پاس دو راستے تھے۔ اولا وہ ونڈوز کی خوب چوری کریں دوم وہ متبادل فراہم کریں۔ خوش قسمتی سے انہوں نے دوسری راہ کا انتخاب کیا اور آج اس کا نتیجہ فائر فاکس، اوپیرا اور کروم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بہت سے میعاری سافٹ ویر کی ابتدائی محرک اس کی قیمت سے زیادہ اس کا کلوزڈ سورس ہونا تھا۔
آخر میں وہی فلسفہ کہ کسی ایک غلط کو دوسرے غلط کا جواز بنانا بذات خود غلط ہے۔ جرم بہر حال جرم ہے چاہے محرک کچھ بھی رہا ہو اور کسی مخصوص حالت میں حد کا لاگو نہ ہونا جرم کو حلال نہیں کردیتا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پائیریسی اجارہ داری کا توڑ ہے تو انہیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پائیریسی اجارہ داری کی مضبوطی کا باعث ہے کیونکہ آپ غیر قانونی ہی سہی صارفین کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، متبادل کا استعمال ہی اجارہ داری کو سب سے بڑا دھچکا ہے اور ان تمام باتوں کے باوجود آپ پائیریسی کو حلال سمجھتے ہیں تو کسی بھی عرب اسرائیل جنگ کو اس کا جواز بنالیجیے آپ کا ذہن قبول کرلے گا۔