مغل فرمانرواؤں کا ذکر چھڑے تو ہمارے ذہن میں‌ نا معلوم کیوں دو تصور ابھرتے ہیں ایک تاج محل اور دوسرا حقہ۔ گو کہ حقے نے براہ راست ہماری ذاتی زندگی میں مخل ہونے کی کوشش نہیں کی لیکن الفت کے انتہائی خطیر ذریعہ اظہار تاج محل کی شان میں رفیق حیات کی جانب سے نیک کلمات سن کر ہمارا ماتھا فوری طور پر ٹھنک گیا تھا۔  ممتاز محل کی تاج محل میں ابدی موجودگی کی اہمیت اور شاعرانہ تحریف کے شاطرانہ استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے زوجہ سے عرض کی کہ تاج محل ہے کیا چیز؟۔۔ غریبوں کی محبت کا ہنسی ٹھٹھہ؟ میری پوچھو تو

کبھی نہ ٹوٹنے والا مزار بن جاؤں ۔۔۔۔۔
تو میری ذات میں رہنے کا فیصلہ تو کرے

زوجہ پر اس تحریف کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اُس دن کے بعد الفت کے تمام تقاضے ہماری ناتواں جیب  سے ہم آہنگ ہوگئے، سچ پوچھیے تو شہنشاہ کو زیر کرلیا۔‌ ہمیں یہ احساس ہے کہ زیر تحریر مضمون حقے کی تاریخ کا بیان ہے لیکن تاج محل سے یوں صرف نظر کچھ مناسب بات نہیں یہ ہمارے پرکھوں کی نشانی ہے اور بدبخت انگریز کی وجہ سے آگرہ میں‌ ہی رہ گیا۔

حقے کی تاریخ۔
مغل شہزادوں کی تعداد اور عمر میں خاطر خواہ اضافے کے پیش نظر کہاجاتا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کچھ ایسی خواہش ظاہر کی کہ "شہزادہ بھی مرجائے اور ملکہ بھی نہ روٹھے"۔ مغل فیملی ڈاکٹر نے ظل الہٰی کے حکم کی تعمیل میں حقے کا نسخہ پیش کیا اور دربار سے وابستہ ہر فرد کے لیے حقہ کا استعمال لازمی قرار پایا۔ جہاں کسی شہزادے نے تخت شاہی کے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کی محل کے خواجہ سراؤں نے بادشاہ کے تیور دیکھتے ہوئے چلم میں سنکھیا رکھوا دی۔ تاریخ‌ کی کتابوں میں درج ہے کہ ایک ہی کش میں شہزادہ دھویں کا مرغولا اڑانے سے پہلے ہی رحمتہ اللہ علیہ ہوجایا کرتاتھا۔ کتنے ہی ولی عہد حقے کی بدولت بادشاہ کے عہد میں ہی ولی ہوگئے‌ اور حقے سمیت سنگ مرمر سے مزین مزاروں میں پہنچادیے گئے۔ انہیں مزاروں سے حقے کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی جہاں عامی ہاتھوں میں پہنچنے کے بعد حقے کی شاہی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور تمباکو کے ساتھ ساتھ کئی دوسری جڑی بوٹیاں بھی چلم کی زینت بننے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حقہ راج محل سے نکل کر بر صغیر کے گلی کوچوں میں پھیل گیا۔

حقے کی ساخت۔
کسی سیانے فرنگی کاقول ہے کہ سگریٹ کے ایک سرے پر شعلہ اور دوسرے پر احمق ہوتا ہے۔ حقے کو فرنگی سازشوں‌سے بچانے کے لیے اس کی ساخت اسطرح کی رکھی گئی ہے کہ اول تو اس قول کا اطلاق ہی نہیں‌ہوتا اور بالفرض محال اطلاق کر بھی لیا جائے تو احمق کا تعین درست طور نہیں‌ ہوپاتا۔ اس طرح کی پیچیدہ ساخت علم کیمیا اور انجینئرنگ کے مربوط اور منظم اطلاق کے بغیر ناممکن سی بات ہے۔ نالیوں کا ایک پیچیدہ نظام جہاں بلی ماراں کی گلیوں کو گہناتا ہے‌ وہیں آگ اور پانی کے ایک عظیم ملاپ کو بھی ممکن بناتا ہے جس کے لیے دین الہٰی کے عالموں کا مشترکہ فتویٰ تھا کہ باوضو دھواں حرام کیونکر ہو۔

حقے کا استعمال
حقہ بنیادی طور پر تمباکو نوش کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کی پھکنی میں گردن پھنسا کر جان دینا چاہیں یا چلم الٹا کر بقول اقبال کسی"خوشہِ گندم" کو جلانا چاہیں‌تو پروچوائس حلقوں‌کی طرف سے آپ کو شہید ہی مانا جائے گا۔‌ غم بھلانے، مچھر بھگانے اور مکھیاں اڑانے کے لیے تو حقہ استعمال کیا ہی جاتا ہے لیکن تھوڑی بہت سعی کی جائے تو ٹائی ٹینک ڈوبنے جیسی کسی بھی صورت حال میں اس کو چپو چلانے یا برف پگھلانے جیسے عظیم منصوبوں کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ہوائی سفر میں حقے کی موجودگی کیوبا کے متبادل ویزے کا کام بھی کرتی ہے اور چلم گرم ہونے کی صورت میں‌ تو فرسٹ‌کلاس یا پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے آپ کو فوری سفری سہولت بھی مل سکتی ہے۔ یوں تو حقے کے کئی اور چھوٹے بڑے استعمالات گنوائے جاسکتے ہیں لیکن حقے کا سب سے اچھا استعمال یہی ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے۔

مغل سلطنت کے عظیم الشان عہد کی نشانی کے طور پر حقہ ہمیشہ ہم میں‌رہے گا اور جب کبھی مغل سلطنت کی بات ہوگی ہم بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہزار سالہ شاندار دور کا ورثہ ہے  ایک مسجد،  چند قلعے، ایک مقبرہ اور یہ حقہ۔