بنیادی طور پر تعلیم یا آپ اسے جدید تعلیم بھی کہہ لیں تو قابل اعتراض نا ہوگا کے میدان میں ہم کس سطح پر کھڑے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کرنی چاہییں ایک منظم مہم کی صورت تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کے خلاف آج کل ایک طبقہ بہت زیادہ سرگرم ہے۔ بنیادی طور پر باقاعدہ تعلیم ان کا ایک نشانہ ہے اور اچھنبے کی بات ہے یہ کہ اکثر ہرزہ سرا خواتین و حضرات نا صرف اسی نظام کے پروردہ ہیں بلکہ اس کے فیوض و برکات سے بھی پوری طرح مستفید ہورہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں باقاعدہ تعلیم، عمومی حکمت اور کامن سینس میں یوں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا لیکن صورت حال اُس وقت انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے جب چند غیر معمولی ناخواندہ لوگوں کو مثال بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے انسانی صلاحیتوں میںکسی غیر معمولی فرق کا پیدا ہونا محال ہے اور خواتین کے معاملے میں تو طرز فکر ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ پروفیشنل تعلیم کے پیچیدہ مراحل سے گزر کر تیار ہونے والے ٹیلنٹ کے انخلاء کی اولین وجہ بھی یہی طرز فکر ہے۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب وہ طالب علم ہیں جو اس وقت اعلٰی تعلیم کے حصول میں مشغول ہیں تو انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس زور و شور سے آپ کی حاصل شدہ تعلیم اور توثیقی اسناد کی تکذیب کی جارہی ہے یا کی جاتی ہے وہ سراسر غلط عمل ہے اور زندگی کے اگلے مراحل میں یہ تعلیم اور اسناد آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے چناچہ معاشرے کے ان ہارے ہوئے مایوس لوگوں کی باتوںپر ذرہ برابر توجہ نا کریں اور پوری تندہی سے جو وسائل میسر ہیں انہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کریں۔ چند لوگوں کے لیے آپ کی ڈگری محض کاغذ کا ٹکرا ہے لیکن اس کی اہمیت آپ جانتے ہیں یا جن لوگوں نے آپ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا ہے وہ جانتے ہیں۔
جدید تعلیم پر انتہائی دائیں بازو کے ان منظم مذہبی حلقوں کا اعتراض تو سمجھ میں آتا ہے کہ جن کی بقاء کی انتہائی بنیادیں اسٹیٹس کُو پر قائم ہیں لیکن عام عوام اور پڑھے لکھے لوگوں میں اس سوچ کا عام ہوجانا اور ہر رحمتہ اللہ علیہ یا دامت برکاتہم عالیہ کی فرمائی ہوئی ہر بات پر من و عن ایمان لانے کے عمل سے معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں اور انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ یہ انتہا پسندی محض انتہائی دائیں جانب کی نہیں ہوتی بلکہ رد عمل کے طور پر انتہائی بائیں بازو کی طرف بھی ان لوگوں کے سرکنے کا عمل جاری رہتا ہے جو توازن کی صورت میں معتدل سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔
دوسری تہذیبیں اپنے خنجر سے خوکشی کریں یا نا کریں لیکن اگر تعلیم خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم میں ہمارا قبلہ درست نا ہوا تو ان کی موجودگی اور غیر موجودگی سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا ہاں دوسری صورت میں شاید اپنی جہالت چھپانے کے لیے ہمیں الزام دینے کے لیے بھی کوئی میسر نا ہوگا۔