پہلی بار بلوغت کے لغوی معنی جان لینے کے بعد ایک تندرست ذہن نوجوان کی تعلیم بالغاں میں دلچسپی کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ یہ بات صرف اہل نظر ہی سمجھ سکتے ہیں اور یہ واضح کردینا بہت ضروری ہے کہ اہل نظر سے ہماری مراد اسی کی دہائی کے ضیائی دور میں سن بلوغت کو پہنچے والے احباب ہی ہیں کہ اُس دور کی لغت میں "بالغ" کے معنی موجود ہونا ہی بہت بامعنی بات تھی۔ تاریخ کے مناسب حوالے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب "ننھی کی نانی" کے توسط سے لفظ "بالغ" آپ تک پہنچے اور آپ عمر کے اُس حصے میں ہوں جہاں آپ کی دلچسپی ننھی اور نانی سے زیادہ ذیلی واقعات میں ہو تو تعلیم بالغاں سے وابستہ امیدیں مختلف ہوا کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ہر چیز کی الگ الگ مذہبی، قانونی اور معاشرتی تعریفیں وضع کررکھی ہیں؛ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ایک ہی انسان کو بار بار بالغ ہونا پڑتا ہے کبھی مذہبی لحاظ سے، کبھی قانونی لحاظ سے اور معاشرتی اعتبار سے تو کروڑوں کی آبادی میں یہ ایک نایاب صفت ہے۔ قانون چونکہ نابینا واقع ہوا ہےاور اُسے بسا اوقات سامنے کی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں چناچہ قانونی بالغ ہونے اور تعلیم بالغاں کے اولین تجربے سے فیض یاب ہونے کے لیے اٹھارہ برس کا طویل عرصہ محض قیاس آرائیوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ نئی روشنی اسکول کی پہلی ہی جماعت میں جب ہم فخریہ شناختی کارڈ لہراتے داخل ہوئے اور گورکن کے کئی "ویلیوڈ کسٹمرز" کو ہم جماعت پایا تو اپنی نادانی کا احساس جاگا لیکن جب الف سے اچھی اور گاف سے گڑیا کے بجائے الف سے انار اور بے سے بکری کا سبق دہرایا گیا تو گویا خواہشات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور بقول شاعر
گاہ گاہ وحشت میں گھر کی سمت جاتا ہوں۔۔
اس کو دشت حیرت سے واپسی نہ سمجھا جائے
بات آج کی ہوتی تو کچھ نظر آتش کر غصہ ٹھنڈا کر لیتے لیکن ضیائی دور میں زیادہ تر احتجاج گھروں تک ہی محدود رہتے تھے اور اگر آپ ایک قدامت پسند گھرانے کے واحد روشن خیال ہیں اور بالحاظ سِن؛ گھر کے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو بعد از احتجاج ہمارے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گوکہ بہت وقت گزر چکا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں تعلیم بالغاں کا سلسلہ اُسی جمود کا شکار ہے۔ دنیا کی چھٹی بڑی آبادی میں آج بھی فرشتے ہی بچے گھر کی دہلیز پر چھوڑ جایا کرتے ہیں اور ہم تعلیم بالغاں کے نام پر الف سے انار اور بے سے بکری پڑھا کر آبادی کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس ہفتہ بلاگستان کے یوم تعلیم کے موقع پر ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ تعلیم بالغاں کو اس کے لغوی معنوں میں حقیقی روح کے ساتھ بحال کیا جائے تاکہ معاشرتی بالغوں کی پیدائش کا سلسہ شروع ہو سکے۔