اگلے زمانے خاک ہوئے جب بھلے لوگوں کی وراثت بھی حسینوں کے خطوط اور چند تصاویر بتاں تک محدود تھی۔ یاں تو ای میلِ معجل کا ایک سیل رواں ہے اور ہر لحظہ یہی خیال پریشان کرتا ہے کہ اگر قضاء سے پہلے اپنے اس انمول ذخیرہ کا بندوبست نہ کرسکے تو کیسی رسوائی کا سامان ہوجائے گا، لوگ میت کے وزن کا  ای میلز کی تعداد سے موازنہ کریں‌ گے اور منکر نکیر کو ہرطرح بے روزگار کر چھوڑیں گے۔ پہلے ہی ہمارے بائیں بازوآنہ خیالات خاندانی شرافت پر بٹہ تصور کیے جاتے ہیں اس پر یہ برقی ورثہ تو رقیبوں کے لیے مال غنیمت ثابت ہوگا جن کے لیے استاد ابوذری نے کیا نقشہ کھینچا ہے کہ۔

کانٹے کی طرح ہوں میں رقیبوں کی نظر میں
رہتے ہیں میری گھات میں دو چار مسلسل۔۔۔۔۔

ایسا نہیں‌کہ ہم اس بابت بے خبرے ہوئے بیٹھے ہیں ‌یا اس معاملے کو حالات کے دھارے پر چھوڑ رکھا ہے؛ ہم سے جو بن پڑا کر گزرے لیکن تلخ‌ ہے اس معاشرے میں بندہ صارف کی اوقات کے مصداق ہنوز شنوائی کے منتظر ہیں۔ ہم نے انگریزی حکیموں‌ کو ہر طرح‌ کہلوا کے دیکھ لیا، قسمیں  کھا کھا کے ای میلز لکھیں کہ قبلہ ہم اپنے جسم کے تمام اعضاء سے عموماَ‌ اور آپ کی دلچسپی کے عضو سے خصوصاَ پوری طرح مطمئن ہیں اور ان کی قدوقامت بھی ہمیں بھلی ہی معلوم ہوتی ہے، طبی مجلوں میں‌ چھپی اشکال بھی ہمارے قیاس پر دلیل ہیں؛ آپ ناحق ہماری فکر میں جان ہلکان کیے جاتے ہیں؛ اپنی خدمات کا بہاؤ اس طرف کیجیے جہاں حق دار آپ کی نیلی دواؤں کے لیے بے تاب ہیں۔ معذرت نامے کے ساتھ دو نئے عوارض‌کے نسخے درج تھے کیونکہ ہم طبی مجلوں کے ذیل میں یہ باور کرانا بھول گئے کہ تمام اشکال مطلق تصوراتی ہیں اورمحض‌ اتفاقیہ بھی ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس واقعے کے بعد ہم نے حکماء سے براہ راست رابطہ رکھنا مناسب نہ جانا اور دوسرے ذرائع سے ان کی بیخ کنی کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔

ہمارے ایک دیرینہ دوست کہ قدامت پسندی ان کی پیشہ ورانہ مجبوری،  لیکن دل کے ہاتھوں مصلوب اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ گو کہ شریک فکر ہونے کے سبب آہ و زاریوں کے لیے انہوں نے ہمیں عندلیب کے منصب پر فائز کرلیا تھا لیکن جلد ہی ہم پر یہ راز آشکار ہوا کہ موصوف شادی سے پہلے انٹرنیٹ کی مجازی دنیا میں اپنی ہی زوجہ کی سکھی رہ چکے ہیں اور اس نسبت انٹرنیٹ پر ان کے مسائل کی نوعیت قدرے نسوانی ہے اور اس عذاب ماضی کی پردہ پوشی ان کی اولین ترجیح ہے نہ کہ تقریب اولٰی بعد از مرگ کی فکر میں ہلکان ہیں۔ ان کے تجویز کردہ تمام نسخے بھی نہ جانے کیوں عامل بابا کے وظیفوں کی مانند الٹے ہی ہوئے جاتے ہیں؛ تاحال دوستی کا بھرم قائم ہے کیونکہ موصوف کے نزدیک ناکامی میں نسخوں کے اثر سے زیادہ ہماری نیت کا دخل ہے۔

کسی سیانے نے کہا تھا درد کا حد سے زیادہ بڑھ جانا ہی درد کا علاج ہے تو جہاں کئی طریقہ علاج کی بنیاد ہی یہ کلیہ ٹہرا تو ہم نے بھی ان برقی خطوط کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے کیونکہ ریاضی کے مروجہ قوانین یہی ثابت کرتے ہیں کہ ہم کبھی ان کی تعداد صفر تک نہیں لے جاسکتے۔ ہوسکتا ہے وراثت کے بینچ مارک پر نظر ثانی کی جائے اور شرافت کا میعار ہی تبدیل ہوجائے، اس لیے ہم نے اپنی ہار کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ذخیرہ سے ان کی تفریق کا سلسلہ ہی ختم کردیا ہے۔ شرفاء سے پھر بھی مدد کی درخواست ہے، غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے مسائل دوچار ان کے حل کے لیے کوشاں ہوں گے۔