بی بی سی اردو کا باقاعدہ مطالعہ کرنے والوں کی نظر سے یقینی طور پر “ترکی احادیث کی ازسر نو تشریح“ کے نام سے نامہ نگار رابرٹ پگوٹ کی یہ خبر ضرور گزری ہوگی۔ اس بلاگ کا مقصد اس موضوع پر خالصتامثبت گفتگو کرنا ہے نا کے اس حساس موضوع کو بنیاد بنا کر مزید فتنے یا دل آزاری کا سامان پیدا کرنا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ترکی میں اس بات کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ کیا احیائے دین کا خیال کوئی نیا یا اچھوتا ہے اور پہلی دفعہ پیش کیا گیا ہے اور کیا اس پرفتن دور میں اسے کسی سازش کا شاخسانہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے؟‌ ترکی کے حوالے سے قدامت پسند مسلم حلقوں میں ویسے بھی کئی تحفظات پائے جاتے ہیں اور ترکی کی طرف سے اس خیال کا پیش کیا جانا بلکہ عملی قدم اٹھانا بھی ان حلقوں میں شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

علمی سطح پر قران فہمی کے لیے احادیث کی اہمیت کم و بیش طے شدہ امر ہے اور اس میں عام طور پر دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن کئی حلقوں کا اس بات پر بھی اصرار ہے کے احادیث کی تدوین کے حوالے سے جو بھی تیکنیک استعمال کی جاتی رہے ہے اس میں انسانی غلطیوں کے سرزد ہونے کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا چناچہ ازسرنو تشریح کی بات کرنے والے دین میں کسی تبدیلی کی بات نہیں کرتے بلکہ انکا کہنا ہے کے اس تشریح سے مختلف مسلم معاشروں میں رائج رسومات کو جس طرح دین میں شامل کر لیا گیا ہے اسکا قلع قمع کرنا ہے ان حلقوں یا یہ بھی ماننا ہے کے شاید یہ کوشش فرقہ بندی کے خاتمے یا کم از کم اسکی حوصلہ شکنی کا سبب ضرور بنے گا کیونکہ کئی فرقہ پرستوں کے کاروبار احادیث کے ردوبدل یا نا مناسب باتوں کو احادیث بنا کر عام لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے ہی چل رہے ہیں۔ (خود کش حملہ آور کے لیے بہشت میں بہتر(72) حوروں کا جم غفیر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور مغربی میڈیا اس بات کو حدیث سے منسوب بتا کر کافی پروپیگنڈا کرتا ہے)

دوسری طرف قدامت پسند، کٹر اور روائتی مذہبی حلقوں کا اس بات پر فی الحال کوئی شدید رد عمل تو نہیں دیکھنے میں آیا لیکن اس سلسلے میں انکے بے شمار تحفظات ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کے اسلام دشمن طاقتیں اپنے مسلمان ایجنٹوں کے ذریعے اسطرح کی پھلجڑیاں چھوڑتی رہتی ہیں اور اسکو قبول کرنا قطعا جائز اور ضروری نہیں۔ احادیث میں کسی قسم کی نئی جانچ اور ازسرنو تدوین کوان حلقوں میں تقریبا گناہ کے مساوی کی تصور کیا جاتاہے۔اور انکے خیال میں ہجری صدی کے اوائل میں جو کام ہوچکے میں انکو چیلنج کرنا گویا ان ہستیوں کے مقام یا علمی حیثیت کو چیلنج کرنا ہے جو ایک عام مسلمان کی نظر میں گناہ ہی ہے اور اس بات سے کئی فتنے پیدا ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عام لوگ بھی اس موضوع پر بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں جسکی ایک ہلکی سی جھلک  بی بی سی کے اس فورم پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اردو بلاگرز کی طرف سے ابھی تک اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے امید ہے مزید بلاگرز اس پر اپنی رائے یا تجربات سے مستفید کریں گے تاکہ اس بارے میں کوئی ٹھوس رائے قائم کی جاسکے۔