تشہیر بذات خود بری چیز نہیں، 'بازی' کا لاحقہ استعمال کرکے ہم نے دانستہ اُسے ناپسندیدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یوں بھی اردو میں یہ چلن کوئی نیا نہیں، کئی سابقے لاحقے ایسے دستیاب ہیں جن کا مناسب استعمال اچھے خاصے چال چلن والے الفاظ پر بجلی کی طرح گرتا ہے وہیں شرابی کبابی قسم کے الفاظ کو غسل صفائی دینے کے کام بھی آتا ہے۔ مثلاَ فلم سازی کو ہی لیجیے؛ اصولاَ اردو اور پنچابی کی ہر فلم کے لیے فلم بازی کا لفظ استعمال ہونا چاہیے کہ نہ فلم کا پتا نہ ساز کا؛ خاور کھوکر کی ایک اصطلاح مستعار لوں تو ارتعاش میں ہے ایک جوڑا ’جائے شیر مادر‘ افق سے عمود تک اور نام دیا ہے فلم سازی۔ قصہ مختصر کہ بازی کی منفیت اب تک پوری طرح اجاگر ہوچکی ہوگی۔
ہم اشتہار سازی کے تخلیقی پہلوؤں کے بڑے مداح ہیں کئی “حلال” مشروبات، بیمہ پالیسیوں اور چائے پتیوں کے اشتہارات دیکھنا آج بھی ہمارے لیے ٹی وی ڈرامے دیکھنے سے زیادہ دلچسپ مشغلہ ہے لیکن جب سے تشہیر میں سازی اور بازی کا فرق ختم ہوا ہے اشہارات ہمارے لیے ایک باعث نفرین شے بن کر رہ گئے ہیں۔ دیکھیے ہمیں اس کا کبھی گلہ نہیں رہا کہ ڈرامے دکھانے کے لیے اشتہارات کا تعاون درکار ہوتا ہے یا اشتہارات دکھانے کے لیے ڈراموں کا سہارا، ہم تو خود کش حملے کی خبریں بھی سبز ستارہ کے تعاون سے دیکھنے کو تیار ہیں اور وقت معلوم کرنے سے پہلے چائے پینا بھی قبول ہے لیکن اگر اشتہارات معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بننے لگیں تو پھر بازی پر بند باندھ کر اسے سازی کی طرف واپس لے جانا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ ہمارا خیال یہی ہے کہ آج کل اشتہار سازی ایک طرح کی اشتہار بازی میں تبدیل ہوگئی ہے اور اسکا سب سے بھیانک اثر ہماری صحافت پر پڑ رہا ہے جہاں ’انفومرشل‘ واحد دستیاب جنس ہے۔