پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کم و بیش ہر دوسرا شخص اسلامی نظام کے نفاذ کی تجویز پیش کرتا ہے۔ سادہ، موثر اور پرکشش نظر آنے والی اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے، اس نظام کی خصوصیات کیا ہیں اور کس طرح جدید دور میں قومیت کے جھنڈے تلے اس کا نفاذ کیا جائے گا اس پر عوام کی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام فہم ذہن میں اس حوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیںجیسے
۔ سربراہ مملکت کون ہوگا اور اسے کون منتخب کرے گا ؟ خاندانی سلسہ، عام ووٹ، بادشاہ یا فوجی سربراہ؟
۔ کیا اسلامی نظام کے تحت پاکستان کو آئین کی ضرورت ہوگی؟ 73 کا آئین بحال کیا جائے گا؟ یا قران و سنت سے اخذ کیے گئے کسی مذہب کو مملکت کے آئین اور سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا جائے گا؟
۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد مملکت فلاحی ہوگی یا دفاعی؟ اور امور کار چلانے کے لیے وزیروں اور مشیروں کا نظام کیسے کھڑا کیا جائے گا؟
۔ مختلف فرقوں کو اسلام کے ایک سیاسی نظام پر کیسے متفق کیا جائے گا جبکہ ایک مسجد کا انتظام چلانے پر نوبت مارا ماری تک آجاتی ہے اور کئی فرقے ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے یہاں تک کے متحدہ مجلس عمل کا انجام سب کے سامنے ہے جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی دینی جماعتیں ایک منطقی انجام سے دوچار ہوگئیں جنکی سیاست کا محور اسلامی نظام کا نفاذ رہا ہے۔
۔ اسلامی نظام کے زیر انتظام معاشیات کس طرح کی ہوگی؟ بینکنگ، اسٹاک مارکیٹ اور بین الاقوامی مارکیٹس سے لین دین کی کیا صورت حال ہوگی؟ کسطرح اسلامی نظام تمام مسلمان فرقوں اور اقلیتوں کو ایک معاشی نظام پر لا سکے گا؟ خیال رہے کہ اسلامی بینکنگ کے طریقوں پر بھی عام مسلمانوں میںکافی کنفیوژن پایا جاتا ہے اور کنزیومر بینکنگ سے بڑھ کر جب مملکت کی سطح پر معاشی نظام کی بات کرتے ہیں تو سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلامی معیشت کی عملی شکل کم از کم عام لوگوں کے علم میں نہیں یعنی اس بات کا کوئی جواب موجود نہیںکہ بینکوں کی شکل کیا ہوگی۔ لین دین کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ملکی اور بین الاقوامی معاہدے کس اصول کے تحت کیے جائیں گے؟ ادارے قومی ملکیت میں ہونگے یا نجی ملکیت میں اور کثیر القومی کمپنیاں کس اصول کے تحت اپنے کاروبار سر انجام دیںگی؟
۔ مجوزہ اسلامی نظام میں پاکستانی شہریوں کے حقوق کسطرح کے ہونگے؟ اولین زمانے کی خلافتوں میں امت نمایاں اور قومیت پس منظر میں تھی جبکہ آج کل مسلمان ملکوں میں بھی قومیت پیش نظر رکھی جاتی ہے کس طرح حقوق کا تعین ہوگا؟ کیا کوئی بھی مسلمان اسلامی ریاست کے تحت پاکستان کی شہریت اختیار کرسکے گا؟ ریاست کس حد تک شخص کے معاملات میںمداخت کرے گی؟ کیا ریاست چار دیواری کے اندر مملکت کی سطحپر نافذ مذہب کا بزور قوت نفاذ کرے گی؟
۔ اسلامی نظام کے زیر انتظام پاکستان میں عدلیہ کا ادارہ کیسے کام کرے گا؟ ججوں کا تقرر کون کرے گا؟ کیا سربراہ مملکت کے کرتے کا حساب لیا جاسکے گا؟ اور شخصیت پرستی سے کیسے جلد از جلد عدلیہ اور انتظامیہ کو آزادی دلائی جاسکے گی؟ تعزیرات کی شکل کیا ہوگی؟ کیا ہاتھ کاٹنے اور سر قلم کرنے کے قوانین طالبان طرز پر نافذ کیے جائیں گے؟
۔ تعلیمی نظام کس طرح کا ہوگا؟ مذہبی تعلیم اگر سرکاری سطحپر دی جائے گی تو اقلیتوں اور سرکاری مذہب سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کی تعلیم کا کیا انتظام کیا جائے گا؟ کیریر بلڈنگ، تکینیکی علوم اور عمومی علوم و فنون کی تعلیم کا اسلامی نظام میں کیا درجہ ہوگا؟ حکومت کسطرح روزگار کا بندوبست کرے گی؟
۔ اظہار رائے کی آزادی مجوزہ اسلامی نظام میں کس طرح کی ہوگی؟ کیا سرابرہ مملکت تنقید سے بالا تر ہوگا؟ کیا مملکت کے اختیار کردہ قوانین (مذہب)میں بحث کی گنجائش ہوگی؟ اختلافی نکتہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا؟ میڈیا کی اخلاقی حدیں کون متعین کرے گا؟ لباس، ثقاوت اور روز مرہ کی تفریحات میں لوگوں کو کتنی آزادی حاصل ہوگی؟
پاکستان کے حوالے سے اب تک اسلامی نظام کے نفاذ کی باتیںنعروںسے آگے کبھی نہیںبڑھ سکیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بس ایک اصطلاح ہی ہے اور اس کی بنیاد پر ابھرنے والی تحریکوں کے اپنے پاس اسکے نفاذ کا کوئی واضح خاکہ موجود نہیں۔ عوام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے داعیوں نے صرف جذباتی تقاریر اور مطالبات کی حد تک اسلامی نظام کی خوب باتیںکیں لیکن کسی واضح نظام کی شکل میں اسکی غیر موجودگی کا شدت اور عسکریت پسندوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور بزور طاقت جہاں جہاں بس چلا اپنا مذہب شریعت کے نام پر نافذ کردیا جسے اسلامی نظام بھی قرار دیا گیا۔ رد عمل کے طور پر جو لوگ اسلامی نظام کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ایسی صورت حال میں متنفر ہوگئے جسکی ایک شکل ایم کیو ایم کی اینٹی طالبان مہم کی شکل میںدیکھی جاسکتی ہے اور پاکستان کے شہری علاقوںمیںایک واضح اکثریت شش و پنچ میں مبتلا ہے اور علماء کے ایک غیر مبہم اور واضح فیصلے کی منتظر ہے ۔ کیا طالبان کا افغانستان ہی وہ اسلامی نظام تھا جسکی راہ تکتے تکتے اس قوم کو آسھی صدی بیت گئی؟ یا ابھی تک ہمارے علماء کرام اس بارے میںسوچ بچار میں مبتلا ہیں؟