البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع کرنا پاگل پن کی نشانی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سیانا آدمی مستقبل میں جھانک کر پاکستانیوں کے طرز عمل کو دیکھ رہا تھا لیکن یہ طے ہے کہ اس قول کے مطابق ہم بحیثیت قوم پاگل پن کا شکار ہیں۔ پچھلے ساٹھ برس سے ہم مستقل ایک ہی عمل میں مصروف ہیں اور توقع یہ ہے کہ نتائج مختلف نکلیں گے۔ کیا آمریت اور کیا جمہوریت ہمارا طریقہ کار ایک دائرے میں گھومتا چل رہا ہے۔
آمریت سے خیر کی توقع ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
آمریت زدہ سیاسی جماعتوں سے بہتری کی امید ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
جنگی جنون سے مسائل کا حل۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
چوروں کو امین بنانا ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
اب بھی اگر یہی سوچ ہے کہ کوئی آمر، کوئی آمر نما صدر، کوئی جنگی جنون کا شکار خلیفہ آکر ہماری ناؤ کنارے لگادے گا تو پاگل پن کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تبدیلی عوام سے آتی ہے۔۔ اپنے جیسوں میں اپنے قائد تلاشیے ورنہ یہ اچکے ہماری سات نسلوں کو بیچ کھائیں گے۔ آمریت کے نام پر، جمہوریت کے نام پر اور مذہب کے نام پر۔