ابوشامل صاحب کی تازہ ترین بلاگ پوسٹ پر تحریکی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ مکی صاحب نے ایک شاندار اصطلاح"لینکسیے" متعارف کروادی۔ میری کم علمی کے اب تک اس اصطلاح سے شاید واقف ہی نہ تھا یا مکی صاحب نے گویا فی البدیہ تاریخ کا ایک در وا کردیا۔ یاران بلاگستان کا تجسس بجا کہ یہ بلاگرز کی کون سی قبیل وارد ہوگئی چناچہ فرض منصبی سمجھتے ہوئے سوچا کیوں نا ایک مختصر سا تعارف لکھ دیا جائے مبادا غلط فہمی پیدا ہو اور "برقی جراثیم" کا تاثر پاکر "جھروکوں" والے بلاگرز کسی خوف کا شکار ہو جائیں۔
صاحب لینکسیے یوں سمجھیے کے حیاتیات کے ماہرین کی نظر میں آدم و حوا کے خاندان ہی کے فرد ہیں بس ذرا آزاد منش اور جدیدیت کو مد نظر رکھیں تو "پرو چوائس" قسم کے واقع ہوئے ہیں جو برقی اطلاقیوں کی نا پسندیدہ اقسام کے "ابورشن"کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اپنے محدی و میزی آلات میں بے شمار کھڑکیاں توڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ
میر کیا سادہ ہیںبیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
چناچہ طبیب بدلا گویا دنیا بدل گئی؛ پھر نہ وہ بیماری دل اور نہ عطار کے لونڈے کی سروس پیک دوا۔ لینکسیے کیونکہ ایک تحریک کا حصہ ہیں، کسی صرف کے بے زبان صارف نہیں چناچہ تبدلی انقلاب فشار خون کی مانند چڑھاؤ کی طرف مائل رہتا ہے، گاہے گاہے بھکشوؤں کو معتدل رکھنے کے لیے قائدین کی طرف سے طویل و مختصر المیعاد تحریکی مواد فراہم کیا جاتا ہے جنہیں بدزبان "ڈسٹروز" کہ کر اپنی ناکارہ کھڑکیوں سے ملانے کی کوشش کیا کرتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک تو
چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے۔
یہ تھی مختصر سی بپتا، قرض صرف اتنا کہ قبیلے کا کوئی فرد آپ کی حد نظر میں آ جائے تو خدارا آدم جانیے، لینکس اور سینگ "استعمار" کی حکایت۔ حقیقت وہی جو درویش نے بیان کی۔