ابھی اگلے روز ایک بیکری سے خریداری کرکے کاؤنٹر پر ادائیگی کررہا تھا تو کیشیر نے اچانک "آپ کیسے ہیں" کہہ کر حیران کردیا۔ بظا ہر تو حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ کوئی بھی دو زبانیں بول سکتا ہے لیکن جب آپ ایسے شخص سے اپنی زبان سنتے ہیں جس سے آپ قطعا توقع نہیں کررہے ہوتے تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ضرور ہوجاتے ہیں۔ رات دوستوں کی محفل جمی تو یہ موضوع بھی زیر بحث آیا اور ہمارا اتفاق اس بات پر ہوا اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی اتفاق کریںگے کہ آج کی دنیا بہت سمٹ گئی ہے اور کسی بھی شخص سے آپ کسی بھی چیز کی توقع ر کھ سکتے ہیں کہ لوگوں کے آپس کے میل ملاپ اور انٹرنیٹ نے ہمارے لیے کوئی چیز غیر متعلق نہیں چھوڑی ہے یہاں تک کہ اربن ڈکشنری اور وکی پیڈیا جیسے جناتی اور عوامی ڈیٹابیس بھی وجود میں آگئے ہیں جن کے ذریعے معمولی بازاری الفاظ سے لے کر ہوش ربا فلسفہ تک رسائی ممکن ہے۔
یہ ساری باتیں یوں یاد آئیں کہ اب جبکہ دنیا میں زبانوں اور ثقافتوں سے آشنائی کا ایک نیا اور سہل سلسلہ چل پڑا ہے لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ناموں کی درست ہجے دریافت کرتے ہیں، انکے لغوی اور ثقافتی پس منظر سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ وکی پیڈیا پر شہروں اور قصبوں کے ناموں کے درست ہجے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں اپنا اردو میڈیا ابھی بھی لکیر کے فقیر کی صورت انگریزی سے لفظی ترجمہ کو صحافت کی معراج جانتا ہے اور اس کا منطقی نتیجہ اس صورت نکلتا ہے کوستا ریکا کی پہلی خاتون صدر ’لاؤرا چنچیا‘ کو ’لورا چنچلا‘ بنا دیا جاتا ہے؛ خیال رہے کہ انگریزی میڈیا بھی انہیں چنچلا نہیں کہتا۔۔ آخر اردو ہی میں ایسا کیوں ہے کہ ہر نئے لفظکو انگریزی کی چھلنی سے چھان کر ہی زبان کا حصہ بنایا جاتا ہے؟